بھارت کو دس گنا بڑا جواب، کشمیری کی آزادی

360

پاک فوج کے ترجمان نے بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ بھارت کو اس کے حملے کا جواب دس گنا طاقت سے دے سکتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیک بھارت کی دیو مالائی کہانی ہے، پاکستان کی طاقت پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے جرنیلوں نے خود ہتھیار اُٹھا کر جنگ لڑی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان کے بیان کے دو حصے ہیں، دوسرا حصہ سیاسی ہے اگر بھارت کے بارے میں بیان پر بات کی جائے تو پاکستانی قوم اپنی فوج کے ہر بیان پر دعوے پر شرح صدرسے یقین رکھتی ہے اور یہ یقین ہونا بھی چاہیے۔ لیکن ریکارڈ پر جو کچھ ہے اس کا معاملہ کرکٹ ورلڈ کپ کی طرح ہے کہ کبھی بھارت کو شکست نہیں دی۔ کشمیر میں آپریشن ناکام، 65ء میں بھارت کے بڑے فوجی حملے اور شکست سے بچنا سب سے بڑی کامیابی تھی جس میں قوم کا عملاً فوج کے ساتھ جہاد میں شرکت کرنا ، اہم ترین حصہ تھا۔ اس کے بعد 1971ء میں مشرقی پاکستان کا سقوط جنرل نیازی کا پستول آج تک بھارت کے پاس ہے اس کا ایک گنا بدلہ بھی نہیں لیا گیا دس گنا کیا لیا جاتا۔ پاکستانی قوم کے لیے اس عظیم سانحے کا کم سے کم برابری کی سطح پر بدلہ ہی لے لیا جاتا، دس گنا زیادہ تو یہی ہے کہ کشمیر حاصل کرلیا جائے اور وہ بھی نہیں ہوپاتا۔ پاکستانی قوم کو یقین سے کہ پاک فوج کہیں بھی سرجیکل اسٹرائیک کرسکتی ہے۔ وہ اس کا تجربہ بھی رکھتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اور خصوصاً اسلام کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں ہر قسم کا اسلحہ ہونے کے باوجود فوج کا ہتھیار ڈالنا ایک عظیم سانحہ ہے۔ پاک فوج ترجمان کے بیان پر یقین نہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پاک فوج کی صلاحیت پر بھارت سے زیادہ پاکستانی قوم کو یقین ہونا چاہیے اور یقین ہے لیکن قوم کی توقع یہی ہے کہ پاک فوج مشرقی پاکستان کا بدلہ کشمیر آزاد کرانے کی صورت میں لے لے پھر اس پر کوئی تنقید نہیں کرے گا۔ ترجمان کے بیان کا دوسرا حصہ سیاسی ہے اور اگر وہ اس پر کوئی لفظ بھی نہ بولتے تو اچھا ہوتا۔ کیوں کہ جس بات کو انہوں نے موضوع بنایا ہے اب تو اس کو وہ لوگ بھی ترک کررہے ہیں جو اس سے متاثر ہوئے تھے۔ یعنی انتخابات میں دھاندلی۔ اب اگر کوئی یہ الزام دہرا بھی رہا ہے کہ دھاندلی میں فوج ملوث تھی تو اس کا جواب دے کر وہ اس قصے کو تازہ کیوں کررہے ہیں۔ ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ کسی کے پاس دھاندلی کے ثبوت نہیں۔ بات تو درست ہے کہ نظر سب کو آرہا ہے لیکن ثبوت کسی کے پاس نہیں اور اگر کسی کے پاس ثبوت ہو بھی تو وہ دے گا کس کو؟ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ ثبوت درست ہے یا غلط۔ اب یہ تحقیقات ہورہی ہے کہ آر ٹی ایس کس نے بند کرایا تھا۔ کس کے حکم پر ہوا تھا۔ ہوا بھی تھا یا نہیں، پہلے تو بتایا گیا کہ آر ٹی ایس بند ہی نہیں ہوا۔ پھر بتایا گیا کہ خراب ہوگیا تھا۔ نادرا حکام نے دعویٰ کیا کہ بند ہو ہی نہیں سکتا۔ اب تحقیقات ہورہی ہے جس میں کوئی جواب ٹھونک بجا کر دیا جائے گا جس میں جھول کے امکانات کم ہوتے ہیں لیکن ظاہری بات ہے پہلے جو کچھ کہا جاچکا ہے اسے فرسٹ انویسٹی گیشن رپورٹ کہا جاتا ہے۔ یعنی ایف آئی آر، تو انتخابات 2018ء کے حوالے سے ایف آئی آر کے مطابق دھاندلی نتائج مرتب کرتے وقت ہوئی۔ سب پارٹیوں نے شکایت کی لیکن وقت گزرتے گزرتے ان پارٹیوں کی مجبوریوں نے ایک ہی بات الگ الگ انداز میں اور الگ الگ پلیٹ فارم سے کہنے پر مجبور کردیا۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ فوج نے کسی کو نہیں کہا کہ کس کو ووٹ دو اور کس کو نہیں دو۔ تو ایسا کبھی ہوا ہے کہ فوج کی جانب سے کہا جائے۔ اس کا ایک نظام ہے کہ کس سے کیا کام لینا ہے۔ البتہ بعض چیزیں تو ایسی ہوئیں کہ خلائی مخلوق پر سب کو ایمان لانا پڑا۔ اسی طرح سینیٹ چیئرمین کے انتخاب وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب اور اسپیکر اور وزیراعظم کے انتخاب کے وقت کچھ تو ہوا تھا؟۔ لیکن کس میں دم ہے کہ تحقیقات کرے۔ ایک بات بڑی عجیب کہی گئی ہے کہ نواز لیگ 5 برس مکمل تعاون کرتی رہی ہے، پارٹی کی حب الوطنی ثابت ہوگئی ہے اور کرپشن کے خلاف مہم سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئین میں کوئی ترمیم ہوگئی ہے۔ پارٹی کا فوج سے تعاون شاید اب آئینی ضرورت ہے۔ یا حکومت کا فوج سے تعاون کرنا آئین ہے۔ اب تک تو فوج کا حکومت سے تعاون کرنا آئینی ضرورت تھا یہ کب ہوا کہ پارٹی کی حب الوطنی کا فیصلہ پاک فوج کا ترجمان کرنے لگا۔ کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ پارٹی کی حب الوطنی ثابت ہوگئی۔ ایک اور دلچسپ بات کہی گئی ہے کہ اگر فوج کا احتسابی نظام رائج کیا جائے تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ جناب تھوڑا سا ریکارڈ دیکھ لیں ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز براہ راست اور جنرل یحییٰ مارشل لا کا تسلسل رہے۔ چار مرتبہ مارشل لا لگایا گیا تو یہ کیا فوج کے احتسابی نظام کے بغیر لگائے گئے تھے۔ اگر چار مرتبہ یہ نظام کام نہ کرسکا تو اب کیسے کرلے گا۔ یہ مارشل لا کی خرابیاں ہیں جو آج قوم بھگت رہی ہے۔ مسلم لیگ، کنوینشن، خان، نواز، ق وغیرہ کس نے پیدا کیں؟ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کس نے بنائی، این آر او کس نے دیے۔ تیس بتیس سال فوجی احتسابی نظام بلاشرکت غیرے نافذ رہا کیا ٹھیک کیا۔ ہاں سیاسی پنیریاں خوب لگائیں۔ اب مانیں یا نہ مانیں یہ پنیری بھی اسی مالی نے لگائی ہے بلکہ یہ پنیری نہیں پورا درخت اکھاڑ کر لگایا گیا۔ پھر بھی شوق ہے تو نافذ کردیں فوج کا پورا نظام۔۔۔ کوئی روک سکے تو روک لے۔معاملہ یہی ہے کہ زور زبردستی سے کوئی بھی کام کیا جاسکتا ہے لیکن نتائج تو وہی نکلیں گے جو ایسے کاموں کے نکلتے ہیں۔ یہ بھی اتفاق یا حسنِ اتفاق ہے کہ فوج کے ترجمان نے بھی یہی کہاہے کہ جمہوریت برقرار رہنی چاہیے اور چیف جسٹس نے بھی یہی کہاہے کہ جمہوریت برقرار رہنی چاہیے۔ لیکن جو جمہوریت برقرار رکھی گئی ہے وہ کیا ہے۔ حکومت کے قیام کو دو ماہ سے زیادہ ہونے کو ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی تک حکومت بننے کا عمل جاری ہے۔ چیف جسٹس کا یہ بیان بھی معنی خیز ہے کہ آئین کے خلاف کوئی اقدام قبول نہیں۔ سوال یہ ہے کہ قید و بند کا شکار لولی لنگڑی جمہوریت کو بھی کس سے اور کیا خطرہ ہے۔۔۔ کیا کوئی چیز اندر اندر پک رہی ہے۔ جس کے بارے میں بڑے بڑے لوگ بات کررہے ہیں۔