سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف نے یہ کہہ کر ایک جائز اور صائب سوال اُٹھایا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو کس نے پچاس لوگوں کو گرفتار کرنے کا اختیار دیا؟ وزیر اعظم نے چند دن قبل کہا تھا کہ اگر میں احتساب بیورو کا سربراہ ہوتا تو اب تک پچاس بڑی مچھلیاں پکڑی جا چکی ہوتیں۔ اس اظہار تاسف کے ذریعے وہ احتساب کے نظام کی سست روی کی جانب اشارہ کررہے تھے۔ ایک اور موقعے پر انہوں نے صاف انداز میں کہا تھا کہ میں بدعنوان عناصر کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوان عناصر پاکستان میں ایک طاقتور مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ عناصر اس قدر ماہر اور کاریگر ہیں کہ زمین پر اپنی وارداتوں کا کوئی نشان نہیں چھوڑتے۔ ان کے نقش قدم کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہے۔ اس بے رحم نظام کی کارستانیوں کی کیا بات کی جائے کہ کراچی کا ایک قلفی والا، ایک ریڑھی بان کروڑ پتی ہے مگر اسے گھر کا چولہا جلانے کے لیے سو سو دکھ جھیلنا اور سہنا پڑے ہوں گے۔ قسمت ان بدقسمت لوگوں سے چند قدم کی دوری پر مہربان ہوتی ہے مگر کاریگر عناصر انہیں اس سے قطعی بے خبر رکھتے ہیں۔ ان کا نام ونسب، ان کی شناخت کسی دوسرے کی قسمت سنوار رہا ہوتا ہے اور وہ اور اس کا اپنا گھرانہ روزانہ کی بنیاد پر غربت کی قبر میں انچ در انچ اُتر رہے ہوتے ہیں۔ کراچی میں ہڑتالوں کے زمانے میں اس شخص نے کس عذاب کا سامنا کیا ہوگا اس کا تصور بھی محال ہے۔ ایسے کتنے ہی ریڑھی بان، کتنی ہی ملازمائیں اور خادمائیں اور کتنے ہی طلبہ محض بدعنوانی کے نظام کی آگ میں جلتے اور اپنی سوختہ بختی کا ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔ اس نظام سے چھٹکارے کے لیے ہم نے کبھی ایک خمینی تو کبھی صدام حسین کی آمد کا خواب دیکھا۔ دنیا کے جس کونے میں بدعنوانوں کو کڑی سزا دینے کا واقعہ سننے اور پڑھنے کو ملا ہم نے رول ماڈل کے لیے اس محتسب اور اس جیسے محتسب کے انتظار پر آنکھیں لگادیں۔ بدعنوانی کا یہ بے رحم نظام اس ملک کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ نچوڑ چکا ہے کسی رو رعایت کا مستحق نہیں۔
اس کا کیجیے کہ ہمارے ملک میں جو آئین اور نظام نافذ ہے اسے نظام کی ماں برطانیہ نے پارلیمانی نظام کا نام دے رکھا ہے۔ اس میں کوئی فرد مطلق العنان نہیں بنتا۔ اس میں طاقت اور اختیار اتنی پرتوں اور دائروں میں تقسیم ہوجاتی ہے کہ اس کا دبدبہ اور رعب ہی نہیں رہتا۔ طاقت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز شخصیت کا سراپا بھی زمان�ۂ قدیم کے بادشاہوں اور تاجوروں، ظل سبحانوں، اوتاروں اور مافوق الفطرت کرداروں جیسا نہیں ہوتا۔ یہاں حکمران ایک آدمی کی طرح مگر اس سے کچھ زیادہ ذمے داریوں کے بوجھ سے جھکا ہوا ہی ہوتا ہے۔ یہاں آزادی اظہار، پارلیمنٹ اور آزاد ادارے حکمران کے پر کاٹنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں مبادا وہ اتنی بلندیوں پر نہ چلا جائے کہ خود کو مخلوق خدا سے برتر اور نمایاں سمجھ بیٹھے، کسی الگ دنیا کا باسی ہو کر رہ جائے۔ اس نظام میں قانون اور سزا وجزا کے عمل کو بہرحال ایک قاعدے اور متعلقہ قانون اور مروجہ طریق�ۂ کار کے تحت آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں کسی جرم کے مرتکب کے لیے خواہ اس پر کسی قتل کا الزام ہی کیوں نہ ہو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ نائن الیون کے بعد جب امریکی حکمران مغضوب الغضب ہو کر جھاگ اُگلتے تھے اور اُسامہ بن لادن کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے جو جوشِ جذبات کے باجود امریکی صدر بش جونئر اُسامہ کو سز ا دینے کی نہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے اور کھڑا کرنے کی بات کرتے تھے۔ نظام انصاف حکومتوں سے الگ ایک عمل کا نام ہوتا ہے۔ حکومت کا کام کسی ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے تک ہوتا ہے اور اس کے جرائم کی تفصیلات اور ثبوت دینے تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد کسی کو انجام تک لانا نظام انصاف کا کام ہوتا ہے۔ جرم کتنا ہی بڑا اور مجرم کتنا ہی خوں خوار اور خوفناک کیوں نہ ہو مگر حاکم وقت اسے سزا نہیں دے سکتا۔ سو پاکستان کے پارلیمانی نظام میں بھی یہی انداز اپنانا لازمی ہے۔
احتساب بیورو ایک آزاد ادارہ ہے جو اپنے طریقہ کارکے مطابق کام کرتا ہے۔ وزیراعظم اور انتظامیہ اس کی معاون ہو سکتی ہے مگر کسی کی سزا کا فیصلہ نہیں سنا سکتی۔ وزیر اعظم یا انتظامیہ کسی شخص کے جرائم کا حساب کتاب مرتب کرکے اسے نظام عدل کے سپرد کرسکتی ہے۔ اس کے برعکس آئینی اور پارلیمانی نظام کے وزیر اعظم کے لیے اس نہیں چھوڑوں گا، پکڑوں کا، سزادوں گا، انجام تک پہنچاؤں گا کی طرح کا انداز تخاطب قطعی مناسب نہیں۔ یہ شخصی طرز حکمرانی کا اسلوب وانداز ہے۔ میاں نوازشریف نے جو سوال اُٹھایا ہے وہ عمران خان کے اپنے دیے گئے عوامی شعور کا نتیجہ ہے۔ میڈیا بھی ان کے اسی پھیلائے ہوئے شعور سے حوالے تلاش کرکے ان پر گرج برس رہا ہے۔ یہ ان کی اپنی پھیلائی گئی لفظوں کی باردوی سرنگیں ہیں جن پر انہیں خود چلنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان تو شاید ان سرنگوں سے جیسے تیسے گزر جائیں گے مگر آنے والوں کے لیے اس راہ پر ایک قدم رکھنا محال ہوگا کیوں کہ اس وقت تک قوم اور معاشرہ نئی باتوں اور اصطلاحات کا عادی ہوچکا ہوگا۔
نئے پاکستان کے نئے حکمران تو خود اپنے لفظوں کے جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں اور اس لیے شاید انہیں کسی سے کوئی شکایت نہ ہو مگر پرانے پاکستان کے پرانے حکمران جب کبھی نئے بن کر آئے تو وہ کسی دور میں ان نئی باتوں اور روایتوں کے عادی نہیں رہے۔ وہ تو اس نئے ماحول میں دم گھٹ کر ہی جائیں گے۔