سعودی صحافی کی گمشدگی، حقیقت کیا ہے؟

409

 

 

یہ بات اپنی جگہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ صحافی بڑی جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور اس فرض شناسی کی وجہ سے وہ بعض اوقات بڑی مشکل میں پھنس جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ قتل تک کر دیے جاتے ہیں۔ حقیقت کی تلاش میں ایسا ہی ہوتا ہے کیوں کہ ہر حقیقت کسی نہ کسی کے لیے بہت تلخ ثابت ہوتی ہے۔ وہ فرد ہو، افراد ہوں، گروہ ہوں، پارٹیاں ہوں یا حکومتیں، سبکی سے بچنے کے لیے ہر حد تک جاسکتی ہیں۔ ترکی میں معروف سعودی صحافی جمال خاشق جی پر اسرار طریقے سے لاپتا ہو گئے ہیں۔ ترکی میں حکام نے جمال خاشق جی کی گمشدگی کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ وہ گزشتہ منگل کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے تھے لیکن پھر اس کے بعد سے نظر نہیں آئے۔ جمال خاشق جی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم نویس ہیں اور وہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بڑے ناقد رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کو ترک حکام کی جانب سے دیے گئے بیان کے مطابق ان کو شبہ ہے کہ صحافی کو سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات ضرور ہے کہ خبر رساں ادارے نے نہ تو اس سلسلے میں کوئی ثبوت پیش کیا ہے اور نہ ہی اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اگر ان کو قتل کیا گیا ہے تو کیسے؟۔ اس سلسلے میں سعودی حکام کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان تو نہیں آیا ہے البتہ سعودی سفارت خانے کی جانب سے ترک حکام کے الزام کی تردید ضرور کی گئی ہے۔ صحافی بہت بڑا اثاثہ ہوتے ہیں اور اگر کسی دوسرے ملک میں ہوں تو ان کی حفاظت کی ذمے داری اسی ملک کی ہی ہوتی ہے جس میں وہ موجود ہوں۔ صحافی ہی کیا، کوئی بھی غیر ملکی اگر کسی ملک میں ہو اور اس کے ساتھ کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے تو جواب دہی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ اب کیوں کہ سعودی صحافی ترکی میں لاپتا ہوا ہے اس لیے ترک حکام کا پریشان ہونا بے معنیٰ نہیں۔ ان کے لیے ایسا ہونا سخت خفت کا معاملہ ہے اور یوں بھی ہے کہ ترکی اور سعودیہ کے خارجی تعلقات بہت مثالی بھی نہیں ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بلوم برگ نیوز سے بات کرتے ہوئے ترک الزامات کی نہ صرف تردید کی بلکہ انہوں نے ترک حکام کو دعوت دی ہے کہ وہ سفارت خانے کا جائزہ لے لیں۔
یہاں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں سعودی شاہی خاندان کے مشیر کی حیثیت سے کام کرنے والے صحافی خاشق جی سعودی ولی عہد کی حالیہ اصلاحات اور سنہ 2030 وژن کے تحت ملک کو جدید بنانے کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مزید برآں سعودی حکومت نے گزشتہ سال تنقید نگاروں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تو جمال امریکا منتقل ہوگئے تھے۔ وہ اس وقت سے وہیں مقیم ہیں اور خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ترک میڈیا کے مطابق حکام اس کیس کو بغور دیکھ رہے ہیں اور توقع ہے کہ منگل تک جاری تفتیش کو بڑھایا جائے گا۔ ترک ذرائع نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا ابتدائی شک سعودی سفارت خانے میں عملے پر ہے جہاں ان کے مطابق جمال کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا اور قتل کے بعد ان کی لاش کو وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ترک حکام کے الزامات درست ہی ہوں لیکن یہ بات تو اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ بہرحال ترکی میں موجود ایک صحافی لاپتا ہو گیا جب کہ اس کو آخری مرتبہ ترکی میں سعودی سفارت خانے کے اندر جاتے دیکھا گیا تھا۔ ابھی چند دن قبل امریکا کے صدر ٹرمپ نے سعودیہ کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے بڑے طمطراق کے ساتھ یہ کہا تھا کہ سعودی شاہ اگر تخت پر متمکن ہیں تو وہ ہماری وجہ سے ہیں اگر ہم ان کے تحفظ پر مقرر فوجی دستوں کو واپس بلالیں تو وہ تخت شاہی پر ایک ہفتے بھی براجمان نہیں رہ سکتے۔ ان کے اس پر غرور بیان پر شاہ کی جانب سے ایک وضاحتی بیان آیا تھا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اس میں امریکا کی کوئی خوبی نہیں اس لیے کہ ہم جو کچھ بھی ان سے لے رہے ہیں اس کے عوض ان کو معاضہ دے رہے ہیں۔ اگر اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے امریکا اس موقع سے ضرور کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھائے گا۔ چناں چہ واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ جمال خاشق جی کو ایک 15 رکنی سعودی ٹیم نے قتل کیا ہے جو بالخصوص اسی مقصد کے لیے سعودی عرب سے ترکی آئی تھی۔ یہ دعویٰ اس بات کا غماز ہے کہ امریکا اس نازک موقع سے فائدہ اٹھا کر ترکی اور سعودی عرب کے بیچ خلیج کو اور بڑھانا چاہتا ہے تاکہ سعودی حکومت کو مزید دباؤ میں لے سکے۔
بی بی سی کے مارک لووین نے کہا کہ اگر جمال خاشق جی کی موت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات جو پہلے سے ہی سرد مہری کا شکار ہیں، مزید خراب ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال سعودی عرب نے مشرق وسطی میں اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر پڑوسی ملک قطر کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن اس سفارتی جنگ میں ترکی نے قطر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ ترکی نے ایران کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے ہیں جسے سعودی عرب خطے میں اپنا سب سے بڑا حریف تصور کرتا ہے۔
ایک جانب امریکی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ترک حکام کو ایسے آڈیو اور ویڈیو شواہد ملے ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لاپتا سعودی صحافی جمال خاشق جی پر تشدد کر کے انہیں استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کیا گیا ہے تو دوسری جانب تازہ امریکی رپورٹوں کے مطابق سفارت خانے میں حملے اور لڑائی جھگڑا ہوا۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا ترک حکام کے سوا کسی اور نے یہ ریکارڈنگ سنی ہے یا نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ جمال خاشق جی پر تشدد کرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں قتل کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔ ان رپورٹوں اور امریکا صدر کے حالیہ بیان کی روشنی میں راقم یہ بات کہنے میں کوئی تردد کا شکار نہیں کہ امریکا دونوں ممالک کے درمیان دوریوں کو بڑھانا چاہتا ہے اور اس گمشدگی کو بہر صورت قتل قرار دیکر ایک نیا فتنہ کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ ایسے نازک حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ دونوں جانب سے الزام تراشیوں کے بجائے اس واقعے کی مکمل تحقیق کی جائے۔ سعودی شاہ اور حکومت کی جانب سے تو پیشکش سامنے آہی چکی ہے لیکن ابھی تک ترک حکام کی جانب سے ایسی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔
فریقین کو چاہیے کہ وہ امریکی یا کسی غیر ملکی ایجنسی کی رپورٹوں کی جانب دھیان دینے کے بجائے از خود آزادانہ تحقیقات کریں۔ اگر یہ تحقیقات مشترکہ ہوں تو اور بھی اچھا ہے۔ معاملہ کیوں کہ بہت اہم ہے لہٰذا برد باری کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ جمعے کو ایک سعودی وفد ترک انتظامیہ کے ساتھ مشترکہ تحقیقات میں شامل ہونے کے لیے انقرہ پہنچا ہے۔ یہ وفد ایسے وقت پہنچا ہے جب ایک دن قبل ہی سعودی شاہی شخصیت شہزادہ خالد الفیصل کے ترکی کے مختصر دورے پر پہنچنے کی خبر سامنے آئی تھی۔ ان کے آنے کی وجہ کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ سعودی شاہی خاندان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی بحران کا جلد از جلد حل چاہتا ہے۔ یہ ایک مستحسن قدم ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک خارجی تعلقات کے اس بحران سے اپنے آپ کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اگر اس میں امریکا کی کوئی شرارت ہے تو اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔