خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں

318

 

 

جسارت میں پیر کے روز شائع ہونے والے کالم میں میں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکا سعودی صحافی خاشق جی کی گمشدگی یا قتل کیے جانے کے امکانات کی وجہ سے امریکا سعودی عرب سے اپنے تعلقات کشیدہ کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میں نے امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا تھا کہ ایک بڑی تقریب میں صدر ٹرمپ نے بہت تضحیک آمیز انداز میں ایک بات کا ذکر کیا تھا کہ سعودی شاہ کا تخت و تاج امریکا کی وجہ سے بچا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم (امریکا) ان کی حفاظت پر مامور اپنے شیطانوں کو واپس بلالیں تو سعودی عرب کے بادشاہ اپنے تخت و تاج کو ایک ہفتے بھی نہیں بچا سکتے۔ ٹرمپ کا یہ بیان کس پس منظر یا کس سیاق و سباق کے حوالے سے تھا اس کا علم شاید ہی کسی کو ہو اس لیے اس بیان سے قبل کوئی ایک بات بھی ایسی سامنے نہیں آئی تھی جس کو یہ سمجھا جاتا کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان کسی رنجش نے سر ابھارنا شروع کردیا ہے۔ معاملات بالکل درست سمت جاتے ہوئے نظر آرہے تھے کہ صدر امریکا کے اس بیان نے دنیا بھر کے کان کھڑے کر دیے۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد سعودی حکومت کی جانب سے رد عمل تو آنا ہی تھا۔ سعودی حکومت نے صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد صاف صاف اور واضح الفاظ میں جو بات کہی وہ بہر لحاظ درست تھی۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ہم امریکا سے جو کچھ بھی لے رہیں وہ بلا معاوضہ نہیں۔ ان دونوں بیانات کی روشنی میں راقم نے قیاس کیا تھا کہ سعودی صحافی خاشق جی کی گمشدگی یا ممکنہ قتل سے امریکا سعودی عرب پر اپنا دباؤ بڑھا سکتا ہے اور سعودی حکومت کی جانب سے دیے گئے بیان پر امریکا لازماً اپنا رد عمل سعودی عرب سے دور ہوجانے کی صورت میں دے سکتا ہے۔ راقم نے اس خدشے کو کچھ اس طرح دیکھا تھا کہ سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ایک طویل مدت سے کبھی مثالی نہیں رہے اور جبکہ یہ واقعہ ترکی میں پیش آیا ہے امریکا اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرے گا اور سعودی حکومت پر اپنے دباؤ میں اضافہ کرکے یا تو سعودیہ سے کیے گئے بہت سارے معاہدوں کو توڑنے کا جواز بنائے گا یا پھر اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کرے گا۔
راقم نے لکھا تھا کہ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں سعودی شاہی خاندان کے مشیر کی حیثیت سے کام کرنے والے صحافی خاشق جی سعودی ولی عہد کی حالیہ اصلاحات اور سنہ 2030 وژن کے تحت ملک کو جدید بنانے کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مزید برآں سعودی حکومت نے گزشتہ سال تنقید نگاروں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تو جمال امریکا منتقل ہو گئے تھے۔ وہ اس وقت سے وہیں مقیم ہیں اور خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ خاشق جی کی پر اسرار گمشدگی کو امریکا نے نہ صرف قتل قرار دیا بلکہ امریکی حکومت نے اس بات دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس کے پاس آڈیو اور ویڈیو، دونوں طرح کی ریکارڈنگ موجود ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خاشق جی کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کی لاش کو سفارت خانے سے کسی اور جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان برس ہا برس کی کشیدگی کو مزید بڑھانے کا موقع امریکا کے لیے اور کیا ہوسکتا تھا سو ثابت ہو رہا ہے کہ امریکا اس سنہری (امریکی نقطہ نظر سے) موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھا نے پر تیار ہو گیا ہے۔
اتوار 14 اکتوبر، امریکی سینیٹ میں یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے کہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں کہ سعودی صحافی کو ترکی میں قائم سعودی ایمبسی کے اندر قتل کیا ہے تو سعودی عرب پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ جمال خاشق جی کی موت میں سعودی عرب کا ہاتھ ہے تو وہ اسے ’سخت سزا‘ دے گا تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ امریکا سعودی عرب کے ساتھ کیے جانے والے بڑے فوجی معاہدے منسوخ کر دے گا یا نہیں۔ یہ تازہ ترین بیان راقم کے اس خدشے کی کہ امریکا سعودی صحافی کے قتل کو جواز بنا کر سعودی عرب سے یا تو دوری اختیار کرنا چاہتا ہے یا اس پر مزید دباو ڈالنا چاہتا ہے، کو تقویت ملتی ہے۔
قارئین کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ امریکا کے مشورے ہی پر سعودی عرب نے تمام عرب ممالک کی ایک مشترکہ فوج تشکیل دی تھی اور ایک بہت بڑی تقریب میں صدر ٹرمپ نے کھرب ہا کھرب ڈالرز کے عوض اس فوج کے لیے جدید ترین ہتھیار فراہم کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ اگر اس کو یوں دیکھا جائے کہ امریکا کو اپنی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے ڈالرز چاہئیں تھے تو وہ تو ایک ہی جھپٹے میں حاصل ہو گئے تھے۔ اب مزید کے لیے اس کی منصوبہ بندی کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ ڈالرز کے تحت اگر سعودیہ کو ہتھیار دیے جاسکتے ہیں تو سعودی مخالف ممالک کو کیونکر فراہم نہیں کیے جاسکتے؟ اب آگے کی صورت حال کیا ہوگی، امریکا کی اس بدلتی ہوئی پالیسی پر سعودی عرب کی جانب سے جو بیان سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشق جی کی گمشدگی کی وجہ سے اس پر کسی بھی قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے خلاف کسی بھی کارروائی کے جواب میں اس سے بڑا ردعمل سامنے آئے گا۔ سعودی حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں صحافی جمال خاشق جی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال کوئی اچھی نہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بڑی دراڑ پڑ چکی ہے اور فی الحال اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ دراڑ پاٹی جا سکے۔ اس صورت میں مزید کیا ہونے والا ہے اس بات کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ سعودی حکام نے جو یہ کہا ہے کہ ’’اگر سعودی صحافی کی گمشدگی یا قتل کو جواز بنا کر سعودیہ کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو وہ امریکا کے خلاف شدید رد عمل دے گا‘‘۔ تو شدید رد عمل کیا ہو سکتا ہے کیوں کہ بظاہر سعودی عرب اس پوزیشن میں نظر نہیں آتا کہ وہ امریکا کے خلاف کوئی موثر کارروائی کر سکتا ہے۔
رد عمل کے طور پر اگر سعودی عرب کوئی جوابی کارروئی کر سکتا ہے تو وہ تیل کا ہتھیار ہے۔ شاہ فیصل کے زمانے میں ایسا ہو بھی چکا ہے جس کی وجہ سے امریکا بہت دباؤ میں آگیا تھا لیکن یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس نازک گھڑی (امریکا کے نقطہ نظر سے) میں ایران ہی وہ واحد ملک تھا جس نے امریکا کے لیے تیل کی سپلائی بند نہیں کی بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بہت تیزی کے ساتھ اپنی پیداوار میں اضافہ کرکے امریکا کی گرتی ہوئی اقتصادی صورت حال کو سنبھالا دیا۔ اگر سعودی عرب تیل کا ہتھیار استعمال کرتا ہے تو اس کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ امریکا اب بھی ایران میں بیٹھا ہوا ہے اور ممکن ہے کہ درپردہ وہ ایران کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ بھی کرچکا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا، یہ بہت غور طلب بات ہے جس پر بلا سوچے سمجھے قدم اٹھا لینا غیر دانش مندانہ کارروائی ہوگی۔
جس گمبھیر صورت حال کا سعودی عرب کو سامنا ہے وہ یہ ہے کہ جمال خاشق جی کی گمشدگی کے بعد بین الاقوامی برادری کے ساتھ کشیدہ ہوتے ہوئے تعلقات کے باعث آج یعنی اتوار کو سعودی عرب کی اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان رہا۔ تقریباً دو گھنٹے کی تجارت کے انڈیکس سات فی صد تک گر گیا جو دسمبر 2014 کے بعد سب سے بڑی گراوٹ ہے، جب تیل کی قیمتیں گر رہی تھیں۔ خطے کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی سعودی بیسکس انڈسٹریز کے حصص میں 7.9 فی صد تک کمی دیکھی گئی۔ سعودی حکومت کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خاشق جی کے معاملے کی آزادنہ تحقیق کرائے اور جو بھی حقیقت ہو وہ دنیا کے سامنے لائے۔ اگر ترکی میں سعودی سفارت خانہ اس جرم قبیح میں ملوث ہے تو سعودی قوانین کے مطابق فیصلہ سنایا جائے اور جو بھی سیاہ سفید ہو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ امریکا سے تعلقات بے شک توڑے بھی جاسکتے ہیں لیکن ہر بات کے ہر پہلو کا خوب اچھے انداز میں جائزہ لینا ضروری ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ کسی بھی معاملے میں کوئی فیصلہ نہ تو جلد بازی میں کیا جائے گا اور نہ ہی جذباتی انداز میں کیا جائے گا بلکہ ہر معاملے کا خوب جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی حتمی قدم اٹھایا جائے گا۔