سرکاری اسکول ٹھیکے پر 

334

حکومت تعلیم سمیت کسی بھی شعبے میں اپنی پالیسی اب تک واضح نہیں کرسکی۔ پوری توجہ قیمتیں بڑھانے پر ہے۔ایک طرف تو سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر بنانے کی بات کی جاتی ہے دوسری طرف پی ٹی آئی حکومت نے سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ چند دن پہلے سندھ کے وزیر تعلیم نے اپنی بیٹی اور دو بھتیجیوں کو حیدرآباد کے سرکاری اسکول میں داخل کر کے قابل تقلید کام کیا تھا مگر پی ٹی آئی حکومت نے سرکاری اسکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے لیے پنجاب کے پہلے بجٹ میں 4ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اسے پنجاب میں تعلیم کا معیار بہتر بنانے کا اقدام قرار دیا گیا ہے۔ 4ہزار 277اسکولوں کے انتظامی امورپرائیویٹ اسکولوں، این جی اوز اور پرائیویٹ افراد کے حوالے کیے جاچکے ہیں ۔ اگرچہ سرکاری اسکول ٹھیکے پر دینے کا منصوبہ مسلم لیگ ن نے بنایا تھا لیکن توقع تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس متنازع اقدام کونظر انداز کر کے سرکاری اسکولوں کامعیار بہتر بنائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس کے لیے بجٹ میں غیر ضروری طور پر 4 ارب روپے بھی رکھ دیے تاکہ سرکاری اسکول ٹھیکے پر دے دیے جائیں اور اس طرح تبدیلی لائی جائے۔ ابتر معاشی صورت حال میں اس منصوبے پر 4 ارب روپے مختص کرنا زیادتی ہے۔ یہ رقم سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنانے، انہیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کی جاسکتی تھی۔ نجی اداروں اورافراد کے حوالے کرنے کے بعد یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ فیسیں نہیں بڑھائی جائیں گی۔ چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں کی ہوشربا فیسوں کے خلاف مسلسل بات کررہے ہیں اور پنجاب حکومت نے سرکاری اسکولوں کی فیسیں بڑھانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ گزشتہ منگل کو چیف جسٹس نے نجی اسکولوں کی فیسو ں میں اضافے کے خلاف مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ نجی اسکول 50ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی من چاہی فیسیں وصول کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی ٹوٹی ہوئی کرسی والے اسکول میں پڑھے ہیں ۔ کبھی سرکاری اسکول ایسے ہی تھے جہاں سے بہت قابل لوگ نکلتے تھے مگر اب ان کوبہتر بنانے کے بجائے ٹھیکے پر دیاجارہا ہے۔