رسوائی کی صلیب

236

عزت مآب چیف جسٹس پاکستان کے اس فرمان سے کون انکار کرسکتا ہے کہ نیب نے کسی بھی مقدمے کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا، بس مقدمات کو لٹکا کر لوگوں کو رسوائی کی صلیب پر لٹکارہی ہے، عادل اعظم خفا نہ ہو تو ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ یہ کام تو عدلیہ بھی کررہی ہے، بلکہ اس سے بھی دو قدم اور چار ہاتھ آگے ہے۔ لاہور کی ایک عدالت 9 ماہ کے بچے پر قتل کے الزام کی سماعت کررہی ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ایسے بے سروپا مقدمات کی پیروی اور سماعت قانونی مجبوری ہے۔ جہاں قانون مجبور ہوجائے وہاں چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں، بھتا خوروں، راہزنوں اور قاتلوں کی حکمرانی قائم ہوجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 9 ماہ کا بچہ قاتل کیسے ہوسکتا ہے؟ انگوٹھا چوسنے والا بچہ کسی کا خون کیسے کرسکتا ہے؟ کون سا ہتھیار اُٹھا سکتا ہے؟ اخباری اطلاع کے مطابق 9 ماہ کے قاتل بچے کو ضمانت پر رہائی دے کر انصاف کا بول بالا کردیا گیا ہے، اچھا ہوتا اگر عدالت بچے کو بری کرکے قانون کی بالادستی قائم کرتی۔ شاید یہ ممکن نہیں کیوں کہ قانون کی بالادستی قائم ہوگئی تو جج صاحبان کی بالادستی ختم ہوجائے گی۔ غور طلب امر یہ بھی ہے کہ قانون کی حکمرانی کے لیے کوئی میکنزم تشکیل کیوں نہیں دیا جاتا جو یہ فیصلہ کرے کہ 9 ماہ کے بچے پر قتل کا مقدمہ کیوں دائر کیا گیا؟ اور کیسے درج ہوا؟ اور پھر اس کا چالان عدالت تک کیسے پہنچایا گیا۔ آخر اس کا مقصد کیا ہے؟ اور اس کی پیروی اور سماعت عدالت کی مجبوری کیوں بن گئی۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی مقدمے کی سماعت سے قبل یہ فیصلہ کیا جائے کہ مقدمہ قابل سماعت ہے کہ نہیں۔
شنید ہے، بہاولپور ہائی کورٹ کے ایک جسٹس صاحب جو فوجداری مقدمات کی سماعت کرتے ہیں سماعت سے قبل یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ مقدمہ قابل سماعت ہے کہ نہیں جو مقدمہ قابل ضمانت یا قابل سماعت نہیں ہوتا اسے خارج کردیتے ہیں۔ وکلا نے جسٹس صاحب کے اس فرض شناس رویے کے خلاف احتجاج بھی کیا، وکلا کا کہنا تھا کہ ان کی فیس کو متنازع بنایا جارہا ہے، ان کے لقمہ حلال میں حرام کی آمیزش کی جارہی ہے، مقدمے کی سماعت ہی نہ ہو تو فیس کی واپسی کا مطالبہ تو کیا جائے گا مگر جسٹس صاحب کا استدلال یہ ہے کہ وکلا فیس کی خاطر عدلیہ کا وقت ضائع نہ کریں، بوگس اور بے مقصد مقدمات کی پیروی نہ کریں۔ کاش! ہمارا نظام عدل اسی سوچ پر قائم ہوتا، مقدمہ کیسا بھی ہو، پیروی وکلا کی مجبوری ہے، معاشی مجبوری ہے، ان کا ذریعہ معاش یہی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو وکلا قاتلوں، ڈاکوؤں اور جعل سازوں کو برَی کرالیتے ہیں وہی بڑے اور نامور وکیل ہوتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ عدالتیں انہی کا احترام کرتی ہیں۔
عادل اعظم! میاں ثاقب نثار کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں چیف جسٹس کا عہدہ ظلم کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے عطا کیا ہے اور وہ اللہ کی عطا سے دغا اور وغا نہیں کرسکتے۔ عزت اور رتبہ اللہ کی دین ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اس رتبے کی توفیق کے قابل نہیں ہوتے اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رتبے کو بے توقیر کرتے رہتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے پانچ سال کے بعد ایک دیوانی مقدمے کو محض اس لیے سول کورٹ کو نظرثانی کے لیے بھیج کردیا کہ اسے مذکورہ مقدمے میں کوئی قانونی سقم دکھائی دیا جسے نظر انداز کرکے انصاف کے تقاضوں کا گلہ گھونٹ دیا گیا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے سول کورٹ کے فیصلے کو کس بنیاد پر برقرار رکھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہ ججز قانون سے واقف نہیں تھے، مدعی تیس سال تک مختلف عدالتوں میں حصول انصاف کے لیے دھکے کھاتا رہا مگر عدالت عظمیٰ نے عدالتوں کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ مدعی کے تیس پینتس برسوں کا حساب کون دے گا؟ اپیل در اپیل اور پھر نظرثانی کے چکر نے بالآخر مدعی کی جان لے لی، اب وہ اللہ کی عدالت میں پہنچ چکا ہے وہاں ججوں سے پوچھ گچھ ہوگی مگر وہاں تو کوئی وکیل ہی نہیں ہوگا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ وہاں ان جج صاحبان کا کیا بنے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ قوم انصاف کے لیے کب تک عدالتوں کے دھکے کھاتی رہے گی اور دانش ور کب تک عادل اعظم کی شان میں قصیدے پڑھتے رہیں گے۔