۔74بے قصور لوگوں کو سزائیں

279

پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے دہشت گردی کے الزام میں سزا پانے والے 74 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دے کر ان کی رہائی کا حکم جاری کردیا ہے۔ ہائی کورٹ نے مختصر فیصلے میں لکھا ہے کہ ان ملزمان پر دہشت گردی کے واقعات کا جرم ثابت نہیں ہوتا لہٰذا انہیں رہا کردیا جائے۔ بظاہر یہ مختصر فیصلہ ہے لیکن ملک بھر میں ہائی کورٹس میں ایسے ہی اور مقدمات میں عدالتیں ایسے ہی فیصلے دے چکی ہیں لیکن اس فیصلے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان 74 افراد کو گرفتار کرنے، ان کے خلاف مقدمات چلانے اور ان کو دہشت گرد قرار دے کر بدنام کرنے والوں کے خلاف عدالتیں کیا کارروائی کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں پاک فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ فوج کا نظام احتساب ملک میں نافذ ہوجائے تو معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ایک دو نہیں 74 افراد کی سزائیں کالعدم ہوئی ہیں۔ ان کو فوجی نظام احتساب نے سزائیں دی تھیں کیا یہ نظام معاملات ٹھیک کرسکتا ہے جس میں 74 بے قصور افراد کو موت اور عمر قید کی سزائیں سنادی گئی تھیں۔ عمر قید بھی غلط ہے لیکن موت کی سزا پر عمل ہوجاتا تو کون اس انسان کو واپس لاتا۔ محض سزائیں معاف کرنے کے بجائے آئندہ ایسی گرفتاریوں اور یکطرفہ سزاؤں سے باز رکھنے کے لیے بھی عدالتیں کوئی فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس تو قبر سے مردہ نکال کر احتساب کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔