صوبائی معاملات میں مداخلت؟

226

وفاقی کابینہ نے گزشتہ جمعرات کو اپنے اجلاس میں کئی اہم فیصلے کیے ہیں اور کچھ فیصلے فوری طور پر متنازع بھی ہوگئے۔ کراچی کی ترقی کے لیے گورنر سندھ کی سربراہی میں ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ کراچی کے لیے دیے گئے فنڈز کا صحیح استعمال نہیں ہورہا چنانچہ کمشنر کراچی وفاق کے فنڈز کی نگرانی کریں گے۔ مزید یہ کہ اگر سیکورٹی اور انفرا اسٹرکچر میں وفاق تعاون نہ کرے تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ یہ مشورہ ہے یا دھمکی؟ مرتضیٰ وہاب نے فوری طور پر اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ آئین میں صوبائی خود مختاری کی حدود متعین کردی گئی ہیں چنانچہ تحریک انصاف کی حکومت آئین شکن اقدامات سے باز رہے ورنہ نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ صوبوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اگر صوبائی قیادتوں کو اعتماد میں لے لیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے۔ لیکن کیا ہر معاملے میں محاذ آرائی کو وتیرہ بنالیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کراچی ٹاسک فورس کا فیصلہ اچھا ہو لیکن یہ صوبائی معاملات میں مداخلت تو سمجھا جائے گا۔ اگر وزیراعلیٰ سندھ کو مشورے میں شامل کرلیا جاتا تو اس نئی محاذ آرائی سے بچا جاسکتاتھا۔ گورنر وفاق کا نمائندہ اور براہ راست صدر کو جوابدہ ہوتا ہے۔ وہ کسی صوبائی معاملے کی نگرانی کرے تو اس کا مطلب وفاق کی اجارہ سمجھا جائے گا جو صوبے کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ کمشنر بھی وفاق کا نامزد کردہ ہوتا ہے وہ کراچی کے فنڈز کی نگرانی کرے گا تو وزیراعلیٰ ہرگز پسند نہیں کرے گا۔ وفاق کی طرف سے کراچی کے لیے دیے گئے فنڈز کی نگرانی اگر وزیراعلیٰ کو نہیں سونپی جاسکتی تو میئر کراچی کے حوالے کی جاسکتی تھی لیکن فواد چودھری کہتے ہیں کہ کراچی کے فنڈز کا درست استعمال نہیں ہورہا۔ ان کو یہ بھی واضح کردینا چاہیے تھا کہ 60 دن کی حکومت میں وفاق نے کراچی کے لیے کتنے فنڈز دیے جن کا صحیح استعمال نہیں ہوا۔ یا پھر انہوں نے ماضی کی حکومتوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا جنہوں نے سابق حکومتوں کے فنڈز کا غلط استعمال کیا۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ الزام صحیح ہے یا غلط لیکن ضروری تھا کہ غلط استعمال کے شواہد اور اعداد و شمار بھی پیش کردیے جاتے۔ الزام لگانا تو بہت آسان ہے اور ابھی تک تحریک انصاف کی حکومت یہی کام کرتی آرہی ہے۔ کوئی احتجاج کرے تو فواد چودھری معصومیت سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو چوروں، ڈاکوؤں کو کہہ رہے ہیں، کسی کو برا کیوں لگے۔ اب انہوں نے بغیر ثبوت دیے یہ الزام لگادیا کہ کراچی کے فنڈز کا درست استعمال نہیں ہوا۔ اس پر سندھ میں کسی نے احتجاج کیا تو فواد چودھری اپنا پسندیدہ جملہ دہرادیں گے۔ کراچی فنڈز کا درست استعمال نہ ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس میں بھی کرپشن کی گئی ہے اور کمشنر کراچی اگر فنڈز کی نگرانی کریں گے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اب کرپشن نہیں ہوگی۔ کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ(این ایف سی) میں صوبوں کا حصہ کم کرکے فاٹا کو دیا جائے گا۔ فاٹا (وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے) ایک عرصے سے محرومی کا شکار ہیں اور اس علاقے کو بہت کچھ ملنا چاہیے تاکہ اس کی محرومیوں کاا ازالہ ہوسکے مگر بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ صوبوں کا حصہ کم کرنے سے پہلے کیا صوبائی قیادتوں سے مشاورت کی گئی؟ چنانچہ سندھ کے مشیر اطلااعات نے اس اقدام کو بھی آمرانہ طرز عمل قرار دیا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ فاٹا کی ترقی کے نام پر پسماندہ صوبوں کو مزید تباہی کی طرف دھکیلا جارہاہے۔ لیکن یہ الزام نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ اس سے صوبائیت اور لسانیت کی بو آرہی ہے کہ یہ رقم پختون قبائلیوں کو ملے گی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا مشیر اطلاعات کے خیال میں سندھ بھی پسماندہ صوبہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو سندھ پر مسلسل 10 سال سے حکمران جماعت نے سندھ کو پسماندگی سے نکاالنے کے لیے کیا کیا؟ اس نے تو تھر پار کر کی پسماندگی دور کرنے کے لیے بھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جہاں روز بچے اور مائیں غذا اور دوا کی عدم دستیابی کی وجہ سے مررہی ہیں۔ قومی یکجہتی اور انسانیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ بھائیوں میں سے ایک محرومی اور پسماندگی کا شکار ہو تو سب مل کر اس کی مدد کریں۔ حکم تو یہ ہے کہ پڑوسی بھوکا ہو تو شوربا بڑھادو کہ اسے بھی کچھ مل جائے۔ لیکن قرآن و سنت کے حوالے ان کے لیے بے کار ہیں جن کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی ہو خواہ نام کی حد تک اﷲ اور اس کے رسولؐ سے نسبت ہو۔