پچاس لاکھ گھر یا خیالی پلاؤ

374

وزیراعظم عمران خان نے ملک میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان کردیا ہے جس سے ان کے مطابق غریب لوگوں کو سر چھپانے کا موقع مل جائے گا۔ ان پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کی لاگت 180 ارب ڈالر ہے جسے پاکستانی روپے میں تبدیل کیا جائے تو 24300 ارب روپے بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک نیا ادارہ ’’نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی‘‘ قائم کردی گئی ہے، حکومت کے مطابق یہ ان کے منشور کا حصہ ہے جس کا اعلان الیکشن کے موقع پر کیا گیا تھا۔ ان مکانات کی تعمیر کے لیے زمین حکومت فراہم کرے گی جب کہ رقم کی فراہمی کا کام نجی شعبہ کرے گا۔ ابتدا میں اس منصوبے کے لیے سات اضلاع یعنی اسلام آباد، فیصل آباد، سکھر، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ، گلگت اور مظفر آباد متعین کیے گئے تھے۔ لیکن بعد میں پنجاب کے مزید دس اضلاع کو اس میں شامل کردیا گیا۔ وزیراعظم صاحب کا کہنا ہے کہ ان پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر سے 60 لاکھ افراد کو ملازمتیں دستیاب ہوں گی اور 40 صنعتوں کی پیداوار بڑھے گی، اس سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور جی ڈی پی (GDP) کی شرح نمو میں بہتری آئے گی، اس سے بیرون سرمایہ کاری ملک میں آئے گی اور توازن ادائیگی کا خسارہ کم ہوگا۔ ان پچاس لاکھ گھروں کے لیے فارم نادرا کی ویب سائٹس سے ڈاؤن لوڈ کیے جاسکتے ہیں، اس منصوبہ پر پہلا تبصرہ کسی سیاستدان یا اپوزیشن کا نہیں بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کا آیا کہ ’’پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر خالہ جی کا گھر نہیں اس کی واضح اور ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے‘‘۔
اپنی چھت، اپنا گھر یا اپنا آشیانہ ہر انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے، معاشی ترقی، ٹیکنالوجی، کارخانوں اور فیکٹریوں میں اضافے سے دنیا بھر کے غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں آبادی کا بہاؤ شہروں کی طرف ہوگیا ہے جسے شہریات (Urbanization) کہا جاسکتا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ اپنا گھربار، کھیت کھلیان اور مویشی چھوڑ کر بہتر زندگی کی تلاش میں شہروں کا رُخ کررہے ہیں، اس سے ایک طرف تو شہروں میں بے ہنگم پھیلاؤ ہورہا ہے تو دوسری طرف کچی آبادیوں میں اضافہ ہورہا ہے، ان آبادیوں میں لوگ حقیقت میں ایک غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، پانی کی نکاسی کا تو کوئی انتظام ہے ہی نہیں، پکی سڑک اور روڈ لائٹ کا کوئی گزر نہیں، بارش ہوجائے تو زندگی عذاب، آندھی طوفان میں چھتیں اُڑ جاتی ہیں، آگ لگنے کی صورت میں جمع پونجی جل کر راکھ ہوجاتی ہے۔ کچی آبادیوں کو بڑھتا دیکھ کر ایک مافیا وجود میں آگیا ہے جو زمین پر قبضہ کراکر مکان بھی بنوا دیتا ہے، بجلی کا کنڈا بھی لگوادیتا ہے، پائپ لائن توڑ کر جیسے تیسے پانی لگادیتا ہے اور سیاستدان اس مافیا کے گرو سے مل کر کچی آبادی کو قانونی شکل دینے کے وعدے پر ووٹ بھی حاصل کرلیتے ہیں اور اس طرح غریب لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر طاقتور لوگ اپنا اُلو سیدھا کرلیتے ہیں۔
پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ کیا عملی شکل اختیار کرسکے گا یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب واضح طور پر حکومتی حلقوں کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اب تک پورے ملک میں 60 لاکھ گھر بن چکے ہیں جن میں سے 30 فی صد ایک کمرے پر مشتمل ہیں جب کہ 18 فی صد کچی آبادیوں کی شکل میں ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت پانچ سال کی محدود مدت میں کس طرح پچاس لاکھ گھر تعمیر کرسکے گی۔ ان گھروں پر اخراجات حکومت کے مطابق 180 ارب ڈالر ہیں جب کہ صرف 12 ارب ڈالر کے لیے حکومت آئی ایم ایف کے دروازے کھٹکھٹارہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت صرف زمین دے گی باقی سرمایہ بینک فراہم کریں گے، اس وقت سرکاری ڈسکاؤنٹ ریٹ 8.5 فی صد ہے، چناں چہ بینکوں سے قرضہ بارہ تیرہ فی صد پر ملے گا اور مکان لینے والا 12 ہزار روپے کی ماہانہ قسط 20 سال تک ادا کرے گا۔ پاکستان میں مزدور کی کم از کم ماہانہ تنخواہ 15 ہزار روپے ہے اور برسرروزگار افراد کی 30 سے 40 فی صد تعداد ماہانہ 25 سے 30 ہزار روپے ماہانہ کمارہی ہے اور یہی وہ طبقہ ہے جسے مکانات کی ضرورت ہے مگر یہ طبقہ کس طرح 12 ہزار ماہانہ کی قسط ادا کرے گا۔ آئندہ چل کر اگر شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے تو قسط کی رقم بھی بڑھ جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان اپنے ہاؤسنگ منصوبے میں جن ممالک کی مثال دیتے ہیں وہاں مارگیج پر شرح سود 4 سے 5 فی صد ہے، اس لیے وہاں کی مثال کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ پاکستان میں سرکاری شعبہ میں اب تک جو ہاؤسنگ اسکیمیں جاری ہوئیں اُن سب میں مکان کا حصول تو بہت دور رہا غریب لوگوں کا پیسہ ڈوب گیا۔ اس میں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم، پارک انکلیو اور اسلام آباد جیولز شامل ہیں۔ اس لیے کیا پاکستان کے لوگ حکومت پر اور حکومتی اداروں پر اعتبار کریں گے۔اس لیے یہ پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ ایک خیالی پلاؤ لگتا ہے جس کو سنا کر عوام کو بہلاوا دیا گیا ہے تا کہ تحریک انصاف سے وہ اپنی توقعات کو ٹوٹنے کے بجائے آنکھ بن کر کے اُن کے پیچھے چلتے رہیں۔