خاشق جی کے قتل کا اعتراف

356

آخر کار سعودی حکومت نے سعودی صحافی جمال خاشق جی کے قتل کا اعتراف کرلیا ہے اور اس حوالے سے سعودی انٹیلی جنس کے کئی افسران سمیت 18افراد کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔ جمال خاشق جی کو ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا۔ اسے وہاں جاتے ہوئے تو دیکھا گیا لیکن اس کی واپسی نہیں ہوئی جب کہ قونصل خانے کے باہر بیٹھی ہوئی اس کی منگیتر خدیجہ چنگیز اس کا انتظار ہی کرتی رہ گئی اور قونصل خانہ بند ہونے کے بعد اس کے استفسار پر بتایا گیا کہ وہ پچھلے دروازے سے نکل گیا۔ اسی اثناء میں سعودی انٹیلی جنس کے 15اہلکار قونصل خانے میں آئے اور واپس چلے گئے۔ اب کہا جارہا ہے کہ جمال خاشق جی قونصل خانے میں ہاتھا پائی کے دوران میں مارا گیا۔ یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہے کیوں کہ جمال اکیلا تھا اور اس کے سامنے قونصل خانے کا پورا عملہ اور سعودی عرب سے آئے ہوئے اہلکار تھے۔ اگر کوئی جھگڑا ہوتا تو اکیلے شخص پر قابو پانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ پھر اہم سوال یہ ہے کہ اس کی لاش کہاں گئی ؟ لاش کو چھپانا بجائے خود جرم کا اعتراف ہے۔ لاش کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں کہ یا تو اس کے ٹکڑے کر کے سعودی انٹیلی جنس اہلکار اپنے ساتھ لے گئے یا لاش کو جلا دیا گیا ۔ ترک عہدیداروں کا خیال ہے کہ جمال کی لاش کے ٹکڑے کر کے استنبول کے وسیع جنگل یا کھیت میں دبا دیے گئے چنانچہ ترکی کی پولیس جنگل کو چھان رہی ہے۔ یہ واقعہ 2اکتوبر کا ہے تب سے سعودی حکومت مسلسل جمال کے قتل اور اس میں سعودی اہلکاروں کے ملوث ہونے کی تردید کرتی رہی ہے۔ یہ معاملہ آغاز ہی سے پراسرار تھا اور یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ امریکا میں مقیم سعودی صحافی طلاق کے کاغذات کی توثیق کے لیے استنبول کیوں گیا، وہ یہ کام امریکا میں واقع سعودی قونصل خانے سے بھی کرواسکتا تھا۔ استنبول کے قونصل خانے میں وہ پوری تیاری سے گیا تھا اور اس کی کلائی پر ایسی گھڑی بھی تھی جس کا کنکشن باہر بیٹھی ہوئی منگیتر کے موبائل سے تھا اور اس کو پوری اطلاعات مل رہی تھیں کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ گویا جمال کو معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کچھ برا ہوسکتا ہے۔ تو کیا اسے کسی نے قربانی کا بکرا بنا کربھیجا تھا؟ اس کے قتل پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی دن سے سعودی عرب کو سزا دینے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ ایک دن پہلے ہی ان کا بیان تھا کہ خاشق جی کے قتل پر سعودی عرب کے لیے امریکا کاردعمل بہت سخت ہوگا۔ تاہم جب سعودی حکومت نے خاشق جی کے قتل کا اعتراف کرلیا تو ٹرمپ کا کہنا ہے کہ محض ایک قتل پر ہم سعودی عرب کے خلاف کچھ نہیں کریں گے، وہ ہمارے اسلحہ کا بڑا خریدار ہے۔ سعودی حکومت پہلے دن ہی سے حقائق سے واقف تھی۔ اگر وہ پہلے ہی اعتراف کرلیتی تو اس کا وقار مجروح نہ ہوتا۔ سعودی انٹیلی جنس افسران نے اپنے حکمرانوں کے علم میں لائے بغیر یہ قدم نہیں اٹھایا ہوگا۔ عالم اسلام میں سعودی عرب کا بڑا اہم مقام ہے اور مسلمانوں کی اکثریت اسے احترام کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن اس واقعہ سے سعودی عرب کی ساکھ ضرور متاثر ہوگی۔ جمال خاشق جی سعودی حکمرانوں کے خلاف تنقیدی مضامین لکھتا رہا ہے اور آزادی اظہار رائے کا علمبردار تھا۔ لیکن سعودی عرب میں جو سخت ترین سنسر نافذ ہے اس کی وجہ سے جمال کی تنقید سعودیوں تک نہیں پہنچتی تھی چنانچہ شاہی خاندان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ زندہ رہ کر بھی کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ سعودی حکمرانوں پر تنقید تو بیرونی ذرائع ابلاغ میں عام ہے۔ کس کس کو سزا دی جائے گی۔ خاشق جی کو قتل کرانے کے فیصلے کا فائدہ نہیں نقصان ہوا ہے اور اس کے مضامین دوبارہ پیش کیے جارہے ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ان رپورٹوں پر یقین ہے کہ خاشق جی کی ہلاکت میں اعلیٰ سطحی سعودی ہاتھ ہے۔ لیکن چوں کہ سعودی عرب سے وسیع مفادات وابستہ ہیں اس لیے ردعمل بھی کسی گھنے جنگل میں دفن ہو جائے گا۔