کے الیکٹرک معاملات کی تحقیقات کون کرائے گا؟

212

پاکستان کے اہم ترین اور سب سے بڑے شہر کراچی کا مسئلہ بھی عجیب ہے اس شہر کے دعویدار سب ہیں لیکن اس کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں۔ مسائل کا حل تو دور کی بات ہے مسائل کا ادراک بھی نہیں۔ آج کل کے الیکٹرک سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ہفتے کے روز بجلی کا ایک اور بڑا بریک ڈاؤن ہوا اور نصف شہر کی بجلی بند ہوگئی۔ اس کا اثر واٹر بورڈ کے پمپنگ اسٹیشنوں پر پڑا اور پانی کی فراہمی بند ہوگئی۔ وجہ وہی پرانی۔ کہ ہائی ٹینشن لائن ٹرپ ہوگئی۔ یہ ایک ماہ کے دوران شہر میں چوتھا بڑا بریک ڈاؤن تھا۔ ایک بریک ڈاؤن کو محض ایک بریک ڈاؤن تصور نہیں کیا جاتا بلکہ یہ بریک ڈاؤن کا پہیہ ہوتا ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے واٹر بورڈ کی پمپنگ نہیں ہوتی۔ بسا اوقات لائن پھٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے ٹینکر سروس والوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ لوگوں کے جھگڑے ہوجاتے ہیں اور کے الیکٹرک سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ عدالتیں بھی وکیلوں کے چکروں میں آجاتی ہیں۔ حکمران کوئی بھی ہوں وہ کے الیکٹرک کو اسی طرح تحفظ دیتے ہیں جیسے جنرل پرویز کے دور میں نجکاری کے بعد پہلے نجی خریدار کے معاہدے کو چھپایا گیا پھر اس سے دوسرے خریدار کے حوالے کرنے کے معاہدے سے عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا اور اب کے الیکٹرک 40 ارب روپے کماکر نئی کمپنی کو ادارہ دے کر نکلنے کی تیاری کررہاہے۔ ساری دنیا سے کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والی موجودہ حکومت بھی کے الیکٹرک کے معاملے میں پر اسرار طور پر خاموش ہے۔ آخر اس حوالے سے عدالتی کمیشن کیوں نہیں بننے دیا جارہا۔ جماعت اسلامی کی درخواست کی سماعت کیوں نہیں ہورہی۔ یہ ادارہ تمام قوانین سے آزاد ہے۔ بلنگ میں گڑبڑ، بجلی کی فراہمی میں تعطل، تانبے کے تاروں کی فروخت سمیت درجنوں الزامات ہیں لیکن کوئی اس ادارے کو پکڑنے والا نہیں۔ اس صورتحال میں لوگ یہی سمجھنے لگتے ہیں کہ سب ملے ہوئے ہیں۔ بلکہ واقعہ بھی یہی لگتا ہے بجلی کا بل ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ ہوتا ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی اعلان کے بغیر ہوتی رہتی ہے۔ کراچی پر تو وزیراعظم، صدر مملکت، وزیر خزانہ وغیرہ کا سایہ ہے۔ کیا ان کے سائے میں شہر پر ڈاکو راج جاری رہے گا؟