بیشتر ’’مجرم‘‘ تو حکمراں پارٹی میں آگئے

446

عموماً سیاسی اور جمہوری عمل میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ حکومت اپوزیشن پر تنقید کرتی ہے کہ اسے حکومت کی خرابیاں ہی نظر آتی ہیں اور اپوزیشن ہے کہ حکومت کی خرابیاں ہی نکالتی رہتی ہے۔ گویا یہ ایک دوسرے کو الزام دیتے رہتے ہیں۔ نئے وزیراعظم بھی کسی تبدیلی کے بغیر اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور ان کا انداز انتقامی بنتا جارہاہے۔ انہوں نے وہ جملہ کہہ دیا جو عموماً کوئی ٹیکنوکریٹ نگراں حکمراں کہتا ہے یا فوجی آمر۔ وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ اکثرسیاست دان مجرم ہیں، کوئی نہیں بچے گا۔ اپوزیشن اپنی جائدادیں بچانے کے لیے اکٹھی ہوئی ہے۔کسی دباؤ میں نہیں آؤں گا۔ سیاسی بیورو کریسی اور پولیس کام میں آڑے آرہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان دوسرے مہینے کی تکمیل پر ہی اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ان کی حکومت گرانے کی سازش ہورہی ہے۔ اور موجودہ حزب اختلاف حقیقی نہیں ہے۔ باقی باتیں تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے جواز اور مشکل فیصلوں کے بارے میں وضاحتیں ہیں۔ ان باتوں کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہی باتیں بے نظیر بھٹو 1993ء میں کررہی تھیں ھر 1997ء میں نواز شریف کررہے تھے اور دونوں نے باری باری ایک دوسرے کے بارے میں یہی رائے دی جو صحیح بھی تھی۔ اب کی بار عمران خان نے دونوں پارٹیوں کے بارے میں یہی رائے دی ہے۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ صرف وزیراعظم کانام بدلا ہے اور کچھ نہیں بدلا۔ اب ذرا وزیراعظم کے بیان کا تجزیہ کریں۔ فنی اعتبار سے تو بات بالکل ٹھیک ہے اس کا تو عدالت عظمیٰ بھی اعتراف کرچکی ہے کہ پوری پارلیمنٹ میں صرف سراج الحق ہی 63،62 پر پورے اتریں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت عمران خان بھی پارلیمنٹ میں تھے۔ چلیں یہ تو تبصرہ تھا لیکن عمران خان کو واضح تو کرنا ہوگا کہ اکثر سیاست دان سے ان کی کیا مراد ہے۔ سارا ملک کھلی آنکھوں سے دیکھ رہاہے کہ وہ جو ’’اکثر‘‘ تھے انہیں الیکٹ ایبلز کے نام پر عمران خان نے اپنی پارٹی میں لے لیا ہے۔ ہوسکتا کوئی نہیں بچے گا سے مراد یہ ہو کہ جو باہر ہیں انہیں بھی اپنی پارٹی میں لے لیں گے اور کوئی باہر نہیں بچے گا۔ یہ محض تبصرہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ انتخابات سے قبل سال بھر میں سیکڑوں افراد مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کے ترجمان اور حکومت کے نفس ناطقہ وفاقی وزیر اطلاعات بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہیں جن کو وزیراعظم ماضی میں چور کہہ چکے ہیں یا ان کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے یا چپراسی تک رکھنے کے روادار نہیں تھے آج ان کے وزیر ریلویز ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جنرل پرویز مشرف کو آمر کہتے ہیں ان کے وزیر اطلاعات اور ترجمان شیخ رشید کو اہم وزارت دی ہوئی ہے۔ جنرل پرویز کے وزیر جہانگیر ترین اب عمران خان کے خاص معاون ہیں۔ جن صاحب پر بہت زیادہ شفقت فرمائی ہے اور ان کے ہاتھ میں ملک کی نئی نسل کا مستقبل دے دیا ہے یعنی تعلیم کی وزارت، وہ وہی شفقت محمود ہیں جو جنرل پرویز کے وزیر مملکت تھے۔ یہ خسرو بختیار بھی جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی ٹیم کا حصہ تھے اور ’’سب سے بڑا ڈاکو‘‘ چودھری پرویز الٰہی یہ تو کمال ہوگیا سب سے بڑا اتحادی بنا ہوا ہے۔ جنرل پرویز کی وزیر زبیدہ جلال آپ کی وزیر بھی ہیں۔ عمر ایوب بھی جنرل صاحب کے وزیر مملکت تھے اور آج وفاقی وزیر ہیں۔ عامر کیانی صاحب جنرل پرویز کی ٹیم میں تھے انہیں بھی وزیر مملکت بنایا ہے۔ عمران خان صاحب کا مخمصہ یہ ہے کہ فروغ نسیم کو وفاقی وزیر قانون بنالیا۔ تین مرتبہ آئین توڑنے والے پرویز مشرف کے وکیل کو قانون کا محکمہ دے دیا گیا۔ تو اب بچا کیا؟؟ شاید بچے کھچے بھی آجائیں حکمراں پارٹی میں۔ عمران خان صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جنہیں آپ چور یا مجرم کہتے تھے وہ الیکشن جیتنے کے لیے آپ نے اپنی پارٹی میں شامل کرلیے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کے جائدادیں بچانے کے لیے اکٹھے ہونے کا تعلق ہے تو یہ بات بھی زیادہ غلط نہیں۔ بس اتنی سی مختلف ہے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ اور دیگر علاقائی جماعتوں کے بہت سارے سیاست دان اپنی جائدادیں بچانے کے لیے حکمراں پارٹی میں آگئے ہیں یا اتحاد کرلیا ہے۔ یقیناًمسلم لیگ اور پیپلزپارٹی والے بھی مصلے پر نہیں بیٹھے ہیں بلکہ وہ بھی اپنی جائدادیں بچارہے ہیں لیکن انہیں اتحاد کے بغیر بھی جائداد بنانے اور بچانے کا فن آتا ہے۔ اگر ان کی مراد آصف زرداری ہیں تو ان کو جائداد بچانے کے لیے مسلم لیگ ن کی نہیں حکومت کی ضرورت تھی اور حکومت بچانے کے لیے اور آپ کو وزیراعظم بنانے کے لیے آصف زرداری صاحب کی خدمات ’’گراں قدر‘‘ ہیں۔ اصل ہدف تو شریف خاندان ہے اور اسے اپنی جائدادیں بچانے کے لیے اگلی حکومت ملنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ کیونکہ شریف خاندان تو سب کے نشانے پر ہے۔ آخر میں وزیراعظم کے آئی ایم ایف جانے کے حوالے سے جواز ہیں۔ لیکن یہ بات انہیں اب سمجھ میں آئی کہ آئی ایم ایف کا اصل مسئلہ اس کی شرائط ہیں۔ ورنہ ڈالر تو سب ہی دیتے ہیں۔ وزیراعظم آئی ایم ایف سے قرضہ لینے، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے فیصلوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ اور پھر کہتے ہیں کہ عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ یہ سب کام کرنے کے بعد وزیراعظم نے کہاہے کہ آئندہ ہفتے غربت مٹاؤ منصوبہ لارہے ہیں۔ لیکن جناب جن منصوبوں پر آپ نے عمل کر ڈالا ہے وہ تو غربت بڑھانے والے ہیں۔ پہلے خود غربت بڑھاکر اسے مٹانے کی کوشش انہیں مہنگی پڑے گی۔ پھر یہ نہ کہیں کہ میری حکومت گرانے کی سازش ہورہی ہے۔ انہیں حکومت میں آکر یہ بھی پتا چل گیا کہ سیاسی بیورو کریسی اور پولیس کس طرح حکومت کے کام میں رکاوٹ بنتی ہے۔ انتظامی مشکلات تو اپوزیشن پیدا کرتی ہی ہے لیکن انہیں حل کرنا تو حکومت کا کام ہے خان صاحب کے 100 میں پورے ہونے والے ہیں اب وہ شریف خاندان کا تعاقب چھوڑیں اور حکومت چلانے کی کوشش کریں۔ ورنہ حکومت کے خلاف سازش کرنے کے لیے اپوزیشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔