کراچی کے لیے ٹاسک فورس کا قیام یا نیا ڈراما !

238

 

 

تحریک انصاف کی حکومت نے کراچی پر خصوصی توجہ دینے کی غرض سے ’’اسپیشل ٹاسک فورس‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا اعلان وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے جمعرات کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کے فنڈز درست استعمال نہیں ہو رہے، کمشنر کراچی وفاق کے فنڈز کی نگرانی کریں گے اس مقصد کے لیے مزکورہ فورس بنائی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ بظاہر کراچی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خلوص کا مظاہرہ ہے مگر لگتا یہ ہے کہ اس ٹاسک فورس کے ذریعے وفاقی حکومت کراچی میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش شروع کرچکی ہے۔ وفاق کی جانب سے براہ راست کراچی کی ترقی کے لیے دلچسپی لینا یہاں کے شہریوں کے لیے مسرت کا باعث ہے لیکن دراصل یہ ایک بڑا سیاسی فیصلہ جس کے نتیجے میں کراچی کو وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان ’’سینڈوچ‘‘ بنانا ہے۔ اگر یہ اقدام نیک نیتی کے تحت اٹھایا جارہا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ کیوں کہ سندھ حکومت کراچی معاملات اور امور کے لیے جس قدر منہ موڑ سکتی ہے موڑ چکی اب مزید ایسا کیا تو اس کی گردن ٹوٹ جائے گی۔
وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر سندھ کے مشیر اطلاعات، قانون و اینٹی کرپشن بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ کراچی کے لیے ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان صوبائی امور میں مداخلت کے مترادف ہے جس سے وفاقی حکومت باز رہے کیوں کہ آئین میں صوبائی خودمختاری کی حدود متعین کردی گئی ہیں، این ایف سی ایوارڈ کا فارمولا آئین کا حصہ ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے آئین شکن اقدامات سے باز رہے ورنہ نتائج خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ کسی بھی حکومت کے فیصلے کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے منفی ردعمل سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ ایک متنازع فیصلہ ہے جس پر عمل درآمد کرانا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم دوسری طرف سندھ کے سابق اپوزیشن لیڈر و متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن نے کہا ہے ٹاسک فورس کے قیام کا فیصلہ اچھا اقدام ہے مگر اس میں کراچی کے اراکین سندھ اسمبلی کی نمائندگی بھی ناگزیر ہے۔ ان منتخب نمائندوں کے بغیر ٹاسک فورس کے مقاصد پورے نہیں ہوسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اپنے فنڈز کو براہ راست استعمال کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت میں بعض شخصیات ’’آمریت کی روح‘‘ کے ساتھ قوانین کی ’’دائی‘‘ کی طرح موجود ہیں اس لیے یہ حکومت جو کچھ کرنا اور کرانا چاہتی ہے وہ کرسکتی اور کراسکتی ہے۔ ایسے میں جہاں تحریک انصاف کی حکومت کو قانونی مشکلات کا سامنا ہوگا ایسے ختم کرنے کے لیے بیرسٹر فروغ نسیم اور جہاں طاقت کی ضرورت ہوگی وہاں آمریت اور جمہوریت کے سانچے میں تربیت حاصل کرنے والے شیخ رشید، فواد چودھری اور زبیدہ جلال اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
بہرحال وفاقی حکومت کو عمل کرانے کے لیے انا کو مار کر ضرورتوں کو ترجیحات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ نیشنل فنانس ایوارڈ (این ایف سی) کو ’’اپ ڈیٹ‘‘ کیے ہوئے 12 سال ہوگئے جس کے نتیجے میں وہ ’’آوٹ ڈیٹ‘‘ ہوچکا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے اعلان سے قبل فاٹا کو صوبوں کی رقوم سے کٹوتی کرکے دینے کا فیصلہ بھی غیر دانش مندانہ لگتا ہے۔ اس لیے اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے وفاق کو براہ راست اپنے اخراجات سے کمی کرکے فاٹا کی ضروریات پوری کرنی ہوگی۔
کراچی اسپیشل ٹاسک فورس کے قیام کے فیصلے پر عمل درآمد وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ یہی موقع ہے کہ وفاقی حکومت کراچی میں رہنے والے دیگر صوبوں کے لوگوں کی مد میں ان صوبوں سے ذر تلافی لیکر کراچی کے سپرد کرے۔ جس صوبے کے جتنے لوگ کراچی میں رہ کر شہر کے اخراجات پر بوجھ بنے ہوئے اتنے ہی لوگوں کی مد وفاقی حکومت متعلقہ صوبوں سے کٹوتی کرے اور ہر سال کرے تب ہی کراچی کے ساتھ انصاف کرنے کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔ وفاق کو ٹاسک فورس کا سیکرٹری میئر کراچی کو بنانا ہوگا کمشنر کراچی کو ٹاسک فورس کی نگرانی کی اہم ذمے داری سونپنے کی تجویز بھی نامناسب ہے۔ وفاقی اور پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہیے کہ بلدیاتی اداروں کی خود مختاری بحال کرنے کے لیے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کا جائزہ لیکر اس میں نظر ثانی کے لیے بھی اپنا جمہوری کردار ادا کرنا چاہیے۔ کراچی سے اگر محبت کا اظہار کرنا ہے تو ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ کراچی کی درست مردم شماری کے لیے دوبارہ انسانوں اور مکانوں کی گنتی کرائی جائے۔ کراچی کی یہ خوش قسمتی ہے کہ یہ پہلے جمہوری دور ہے جس میں صدر مملکت عارف علوی، گورنر سندھ عمران اسماعیل، 3 وفاقی وزیر بیرسٹر فروغ نسیم، خالد مقبول صدیقی اور اسد عمر، فیصل واوڈا ناصرف پاکستان بنانے والے مہاجروں کی اولاد بلکہ کراچی پرست بھی ہیں۔ ان کی حکومت میں موجودگی کی وجہ سے عروس البلاد کے شہریوں کو شہر اور شہریوں کو درپیش مسائل کے سدباب کے لیے غیر معمولی توقعات ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ توقعات پر پورا بھی اترتے ہیں یا نہیں۔ اگر مذکورہ شخصیات نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں رہتے ہوئے بھی کراچی کو اس کے حقوق نہیں دلاسکے تو یہ بڑی ناانصافی ہوگی۔ جس کے بعد لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ’’سب ڈرامے باز ہوتے ہیں اور صرف ڈرامے بازی ہوتی ہے‘‘۔