پگڑیاں تو نہ اچھالیں

338

 

 

تمام تر نیک خواہشات کے ساتھ عوام کی زندگی کو جہنم بنا یا جارہا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج حکمران جماعت کے خلاف عوام کے غصہ کا اظہار ہیں۔ لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی چاروں نشستوں پر مسلم لیگ ن کا کلین سویپ تحریک انصاف کے لیے لمحہ فکر ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک جماعت عام انتخابات میں جیتی ہوئی نشستیں دوماہ بعد ہی ہار جائے۔ عوام کے گال پر مارے جانے والے ہر تھپڑ کے جواز میں یہ کہنا کہ اس کی ذمے دار سابقہ حکومت ہے، یہ بیانیہ اثر کھوتا جارہا ہے۔ بائیس برس سے عمران خان کہہ رہے تھے کہ اقتدار میں آکر عام آدمی کی حالت بہتر بنائیں گے لیکن یہ عام آدمی ہی ہے جس کی جیب پر آج چاروں طرف سے ڈاکا مارا جارہا ہے۔ صدارتی محل، وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کی سیر ہارٹ اٹیک کے بعد ان کے لیے تو تفریح کا اچھا ذریعہ بن سکے جو اسٹاک ایکس چینج میں اربوں روپے کا نقصان اٹھا چکے ہیں لیکن عوام کے لیے اب ان تماشوں میں کوئی کشش نہیں رہی۔ بجلی کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں، گیس کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ، سپلمنٹری بجٹ میں نت نئے ٹیکس، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ایک دن میں نو روپے کی کمی اور اب نئی حشر سامانیوں کے ساتھ غریبوں پر زندگی تنگ سے تنگ تر کرتی آئی ایم ایف کی آمد۔قطرہ قطرہ مارنے کے بجائے بہتر ہے غریبوں کو ایک ہی دفعہ ماردیا جائے۔کسی بھی چیز کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اس سے عام صارف متاثر نہیں ہوگا اتنا بڑا جھوٹ ہے جس سے بڑا جھوٹ آج تک ایجاد نہیں کیا گیا۔
ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے منہ پر پڑنے والا طمانچہ اپوزیشن کی کارکر دگی کی بنا پر نہیں ہے۔ اپوزیشن کے گرد جو جال بُن دیا گیا ہے اس سے نکلنے میں اپوزیشن کو ابھی وقت لگے گا۔ ضمنی الیکشن میں کا میابی کے بعد بھی میاں نواز شریف کو لاحق تفکرات بدستور رہیں گے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے فیصلے کے ساتھ ہی نواز شریف کے گرد شکنجہ کسا جانا شروع کردیا گیا تھا۔ پاناما گیٹ میں ان کے خلاف کچھ نہ مل سکا تو اقامے اور کیلبری فونٹ کا جواز تراشا گیا۔ نااہلی کے بعد جب نواز شریف شمشیر برہنہ کی صورت اختیار کرگئے تو اس بات کے قوی امکان تھے کہ نواز شریف الیکشن کے باب میں پالیسی سازوں کی سلیکشن کو سبو تاژ کرسکتے ہیں، سو نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے نیب کو سرگرم کردیا گیا۔ رات گیارہ بجے سنائے گئے فیصلے میں نواز شریف کو دس سال قید با مشقت، مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن صفدر کو ایک سال کی سزائیں سنائی گئیں۔ یوں الیکشن 2018 کی مثال ریسلنگ کے اس مقابلے جیسی تھی جس میں ایک فریق کو باندھ جوڑ کر رنگ کے ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہو اور دوسرے فریق کو مکمل آزادی حاصل ہو۔ چھ بجے کے بعد کی جانے والی دھاندلی کی نئی قسم متعارف کروانے کے ساتھ ہی ساتھ آزاد امیدواروں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دی گئی۔
جو حکومت اتنی تگ ودو کے بعد بنائی گئی ضروری تھا کہ اسے اپوزیشن کی فتنہ سامانیوں سے بھی محفوظ وما مون رکھا جائے۔ الیکشن کے اگلے ہی دن پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتیں جس غصے اور جوش اور جذبے سے بھری نظر آئیں وہ منصوبہ سازوں کے لیے کسی پریشانی اور نئے منصوبوں کی تخلیق کی وجہ تو نہ بن سکا بس انہیں سابقہ کٹھ پتلیوں کو دوبارہ متحرک کرنا پڑا۔ جنہوں نے ایک طرف زرداری صاحب کے گرد منی لانڈرنگ کا شکنجہ کسا تو دوسری طرف شہباز شریف کی گرفتاری کا فیصلہ کیا۔ شہباز شریف کی گرفتاری اچانک عمل نہیں تھا۔ اس کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا گیا تھا۔ بس مناسب وقت اور جواز کا انتظار تھا۔ آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کو ان کے لیے جال بنادیا گیا تھا۔ اس جال کی بُنت سابق وزیر اعظم کے سیکرٹری فواد حسین فواد کی مہینوں پہلے گرفتاری کے ساتھ ہی شروع کردی گئی تھی۔ بعد ازاں فواد حسین فواد نواز شریف کے مسعود محمود بن گئے۔ انہیں سلطانی گواہ بنادیا گیا۔ عام الیکشن میں کامیابی کے آزمودہ طریقے کو ضمنی الیکشن میں بھی آزمایا گیا اور شہباز شریف بھی گرفتار کرلیے گئے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج فیصلہ سازوں کے لیے غیر متوقع ہیں ورنہ ان کی درستی کا بندوبست کرلیا جاتا۔ ان نتائج کے باوجود عمران خان کی حکومت کو کام کرنے کی مکمل آزادی دینے کے لیے اپوزیشن کے سر پر کرپشن کے مقدمات کی تلوار بدستور لٹکتی رہے گی خواہ اس کے لیے کتنے ہی مضحکہ خیز مقدمات قائم کرنا پڑیں۔ قانون ساز حلقے آشیانہ ہاؤ سنگ اسکیم میں شہباز شریف کی گرفتاری کو نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے سے بھی زیادہ حیرت انگیزقرار دے رہے ہیں۔ اس منصوبے پر کچھ کام ہوا نہ سرکاری خزانہ کہیں استعمال ہوا۔ نیب کا کہنا یہ ہے کہ بہتر نرخ پر ٹھیکہ دینے کے مواقع کو گنوا کر سرکاری خزانے کو پندرہ بلین روپے کی رقم سے محروم کردیا گیا۔ شہباز شریف ایک ایسی چوری میں ملوث کردیے گئے ہیں جو ابھی کی ہی نہیں گئی۔ یہ ایک نئی قسم کی کرپشن ہے دنیا جس سے آگاہ نہیں۔ چوکیداروں، مالیوں، فالودہ فروشوں اور عام غریب لوگوں کے اکاؤنٹس سے برآمد اربوں روپے کا منی لا نڈرنگ کا ملٹی بلین اسکینڈل اپنی نوعیت کے لحاظ سے بڑا بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ اگر آصف علی زرداری نے نواز شریف سے قریب ہونے کی کوشش کی توان کے سر پر لٹکی ہوئی نیب کی تلوار کی دھار تیز کردی جائے گی۔
نواز شریف کے خلاف بھی مقدمات حتمی فیصلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نیب عدالت کو 17نومبر تقریباً ایک ماہ بعد ان کے مقدمات کا حتمی فیصلہ دینا ہے جن میں نواز شریف کے لیے اچھی خبر کے امکا نات کم ہی ہیں۔ مستقبل قریب میں ان کی پریشانیوں میں اضافے کا امکان ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری ان کے لیے ایک دھچکا ہے۔ شہباز شریف کو جس طرح گھیرا جارہا ہے ان کے بارے میں تشویش کا عنصر بڑھتا جارہا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنانے کی بات زیر غور ہے۔ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ کی سیاست کس نہج پر ہوگی اس کا فیصلہ نواز شریف کریں گے۔ ن لیگ کا مرکز ومحور نواز شریف ہی ہیں۔ فیصلہ سازی کا کلی اختیار تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی نواز شریف کے پاس ہے۔ ن لیگ کی سیاست احتجاج کی ہوگی یا پس پردہ ریلیف کی اس کا اندازہ جلد ہی ہوجائے گا فی الحال تو اس حوالے سے نواز شریف کا تخیل نامعلوم ہے۔
نیب جس طرح مسلم لیگ ن کے قائدین کے درپے ہے وہ ایک تماشا ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے قائدین اور کارکن بے گناہ ہیں الا یہ کہ وہ مسلم لیگ ن کا حصہ نہ ہوں۔ ملک کے تمام امین اور صادق تحریک انصاف میں شامل ہیں جب کہ تمام چور ڈاکو اور کرپٹ افراد مسلم لیگ ن میں۔ ن لیگ میں شامل ہر فرد مجرم نہیں ہے تو مشکوک ضرور ہے۔ سلمان شہباز کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے آکر وضاحت کریں کہ ان کا طرز زندگی ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس الزام کے تحت تو کسی کو بھی عدالت میں طلب کیا جاسکتا ہے۔ ہم ایک غریب آدمی کو جانتے ہیں جس کا بیٹا ڈاکٹر بن گیا ہے۔ اس غریب آدمی سے بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ تمہارا بیٹا ڈاکٹر کیسے بن گیا۔ آج ایک کم آمدن رکھنے والا شخص بھی اپنے بچوں کی شادی بیاہ کے موقع پر چھ سات لاکھ خرچ کردیتا ہے وہ سب بھی نیب عدالتوں کو مطلوب ہوسکتے ہیں۔ یہ عدالتیں ہیں یا میخانے جہاں کسی کی پگڑی محفوظ نہیں۔