غیر مقبول یا نا معقول

315

ایک تواتر سے غیر مقبول فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اسے حکومت کی مجبوری باور کرایا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ حکومت یہ فیصلے کرنے پر مجبور ہے۔ غیر مقبول فیصلوں کی سادہ سی تعریف ہے عوام پر ظلم۔ جن کی زندگی میں پہلے ہی انگارے بھرے ہوئے ہیں ان کی زندگی کو مزید مشکل بنا دینا۔ بتایا جارہا ہے کہ مالیاتی خسارہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے سات فی صد کے برابر ہے جسے 5.1فی صد تک لانا ہے۔ جس کا مطلب ہے جی ڈی پی کی 1.9فی صد تک ایڈ جسٹمنٹ۔ اس خسارے کو پورا کرنے کا مطلب ہے مزید ٹیکسوں کا نفاذ۔۔۔ لیکن صرف غریبوں پر۔ اخراجات میں کمی۔۔۔ لیکن صرف غریبوں کو دی گئی سہولتیں واپس لے کر۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جاسکتا ہے، گیس کی قیمتیں 140فی صد تک بڑھائی جا سکتی ہیں۔ ضمنی بجٹ میں اشیا کے نرخوں کو آسمان پر پہنچایا جا سکتا ہے، روپے کی قدر میں ایک ہی دن میں 9 روپے تک کمی کی جاسکتی ہے، سبزی پر، گوشت پر، گھی، تیل، چائے کی پتی، بچوں کے دودھ پر، دالوں پر، آٹے پر، کرایوں میں غرض غریب کی ضرورت کی ہر چیز کو آگ لگائی جاسکتی ہے اور اس میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہیں کی جاتی لیکن جو پرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں براہ راست ایکشن لینے اور ٹیکس وصول کرنے کے بجائے انہیں محض نوٹس جاری کیے جاتے ہیں۔ تجاوزات کے نام پرغریبوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، دوچار فٹ بڑھی دکانوں کو مسمار کیا جارہا ہے، ریڑھی والوں کو گالیاں دیتے ہوئے ان کی ریڑ ھیاں الٹی جارہی ہیں لیکن جو بنی گالہ کی پہاڑی پر قابض ہے اس سے ریگو لرائز کرنے کی درخواست کی جارہی ہے۔ مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ کی تنخواہوں اور انہیں دی گئی سہولتوں میں کمی کی گئی؟، ججوں کی تنخواہوں اور مراعات میں تخفیف کا سوچا گیا؟، اسمبلیوں کے اراکین کی تنخواہوں میں کمی اور انہیں دی جانی والی سہولتیں واپس لی گئیں؟، حکمران اور مالدار طبقے سے فوری طور پر محصولات کی وصولی کے لیے کسی غیر مقبول فیصلے کی جرات کی گئی؟ کیا مالیاتی خسارہ پورا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے غریبوں پر ستم بالائے ستم۔ یہ عجیب مدینہ جیسی ریاست ہے جس میں امرا اور حکام سے کچھ طلب نہیں کیا جارہا ہے لیکن غریب کے منہ سے نوالہ بھی چھینا جارہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں اکثر سیاست دان مجرم ہیں۔ یہ پورا سچ نہیں ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ اپوزیشن میں شامل سیاست دان مجرم ہیں۔ خصو صاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی۔ ملک کے تمام چور ڈاکو ان جماعتوں میں شامل ہیں جب کہ تمام صالحین تحریک انصاف کا حصہ ہیں یا پھر فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں شامل ہیں۔ صالحین کی ان جماعتوں نے آج تک کہیں اور کبھی کوئی بدعنوانی کی ہے اور نہ کسی ادارے کو مطلوب ہیں۔ آج اپوزیشن سے متعلق عمران خان کے جو وچار ہیں کبھی نواز شریف کے پیپلز پارٹی کے متعلق ہوا کرتے تھے جس کا نام سن کر ہی ان کا خون کھولنے لگتا تھا۔ نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے حوالے سے جس طرح تیار کیا گیا تھا آج اسی طرح عمران خان کو مسلم لیگ ن کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ عمران خان مسلم لیگ ن میں شامل سیاست دانوں کو نہیں ہر اس سہولت کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں جو سابقہ حکومت نے عوام کو دی تھی۔ خبرآئی ہے کہ پنجاب کے تین شہروں میں ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے زرتلافی واپس لی جارہی ہے۔ میٹرو ٹرین، اورنج ٹرین، ملتان میٹرو یا اسلام آباد میٹرو سابقہ حکومت کے وہ منصوبے تھے جن نے غریبوں کے لیے سفری سہولت ارزاں کی تھی۔ دنیا بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ سبسڈائز ہوتی ہیں۔ حکومت سبسڈی دیتی ہے تاکہ لوگ کم قیمت پر سفر کرسکیں۔ سبسڈی یا
زر تلافی حکومت اپنی جیب سے نہیں دیتی۔ یہ دوسری مدوں میں عوام سے وصول کیا ہوا پیسہ ہوتا ہے جسے نقصان کم کرنے کے لیے زرتلافی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کی مد میں بھی عوام کو فائدہ پہنچانے والی یہ زرتلافی کسی کی جیب سے ادا نہیں کی جارہی تھی بلکہ عوام ہی سے حاصل کردہ پیسہ تھا۔ عوامی سہولتوں کے اعتبار سے ہر حکومت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی حکومت کی پہچان 1122کا منصوبہ تھا جس میں گیارہ منٹ کے اندر شہر کے کسی بھی حصہ میں فائر بریگیڈ یا ایمبولینس کی سہولت دستیاب ہوتی تھی۔ شہباز شریف کی دلچسپی کا میدان سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کی کم قیمت دستیابی تھی۔ موجودہ حکومت جس میدان میں عوام کی خدمت کرنی چاہتی ہے وہ عوام کو سستے پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی ہے۔ مارٹ گیج سے گھروں کی تعمیر ترقی یافتہ ممالک میں عام ہے۔ اس ملک میں عجب تماشا ہے شہباز شریف آئے تو انہوں نے پرویز الٰہی کے منصوبے کو ٹھکا نے لگادیا۔ عمران خان معیشت کو مضبوط کرنے کے نام پر شہباز شریف کے منصوبوں کے درپے ہیں۔ ثابت کیا جارہا ہے کہ گزشتہ حکومت کے دور میں عوام کو دی گئی سہولتیں واپس لے کر ہی معیشت مضبوط کی جاسکتی ہے۔ عوام کو حاصل ہر سہولت کو ختم اور اشیا کو مہنگا کرنا حکومت کرنے کا کوئی اچھا وژن نہیں ہے۔آپ عوام کو کچھ دے نہیں سکتے تو جو کچھ ان کے پاس ہے کم از کم وہ تو رہنے دیں۔ اس پر تو ڈاکا نہ ڈالیں۔
حکومت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ عوام کو دی جانے والی یہ تکلیفیں عارضی ہیں۔ مالیاتی خسارہ کم ہوجائے پھر عوام کی سہولتوں کادور شروع ہوجائے گا۔ یہ ایک دھوکا ہے۔ صریح دھوکا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے مالیاتی خسارہ ایڈجسٹ کرنے کے لیے ملکی تاریخ کی سب سے بدترین مہنگائی کی تھی۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے پورے دور میں قیمتیں کم نہیں ہوئیں۔ نواز شریف کے آنے کے بعد پہلے سے ہی بڑھی ہوئی اشیاء صرف کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا گیا تھا۔ ان کی حکومت کو بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تھا۔ اس دور کی اضافہ شدہ قیمتیں آج بھی برقرار ہیں۔ ان اضافہ شدہ قیمتوں میں آج مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے یہ اضافہ عارضی ہے۔ یہ غلط ہے۔ یہ اضافہ مستقل رہے گا۔ عمران خان کی طرف سے اچھے وقتوں کے جو وعدے کیے جارہے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔ روپے کی قدر کو مزید دباؤ کا سامنا نہیں کرے پڑے گا، آئی ایم ایف کا پروگرام مقررہ مدت میں پورا کرلیا جائے گا اور ڈھول پیٹا جائے گا کہ اب ہمیں آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جانے کی ضرورت نہیں رہی۔ جی ڈی پی کی 1.9فی صد تک ایڈجسٹمنٹ کر کے اسے 5.1فی صد لے آیا جائے گا۔ اس شرح نمو کو اپنی کامیابی قرار دیا جائے گا۔ غیر ملکی مالیاتی اداروں اور دیگر ذرائع سے خوش کن رپورٹیں آنا شروع ہوجائیں گی۔ اکنامک گروتھ کی خوشخبریاں سنائی جائیں گی۔ معیشت کا حجم 300بلین ڈالرسے تجاوز کرجائے گالیکن باہر نکل کر دیکھیں گے تو اشیاء صرف بدستور عوام کی پہنچ سے باہر ہوں گی، جو قیمتیں بڑھ گئی تھیں وہ بدستور بڑھی رہیں گی۔ لوگ اپنی جانوں سے گزر رہے ہوں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام اچھی حکومتیں دینے میں ناکام رہا ہے۔ جمہوریت میں حکومتیں الیکشن میں کامیابی کی بنیاد پر چلائی جاتی ہیں اور الیکشن میں کامیابی کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلے کرتی ہیں۔ نو منتخب حکومتیں ابتدا میں غیر مقبول فیصلوں کے نام پر عوام پر ظلم توڑتی ہیں لیکن یہی حکومتیں الیکشن نزدیک آنے پر عوام کو ریلیف دینا شروع کردیتی ہیں تاکہ ووٹ حاصل کیے جاسکیں چاہے معیشت کی حالت کچھ بھی ہو۔ اگلی حکومت آتی ہے تو وہ پھر بجٹ خسارے،خالی خزانے اور نہ جانے کس کس حوالے سے دہائیاں دے کر پچھلی حکومت کی دی گئی سہولتیں واپس لینا اور مہنگائی کے بم گرانا شروع کردیتی ہے۔ یہ شیطانی چکر یوں ہی چلتا رہتا ہے اور عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے میں نا کام رہا ہے۔ مداوا اسلام کے پاس ہے۔