بجلی کی پیداوار بڑھائیں کریک ڈاؤن نہیں

221

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت انرجی ٹاسک فورس کے اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا حکم ابھی جاری نہیں کیا جائے۔ عوام پر پیٹرول، گیس اور دیگر ٹیکسوں کی بھرمار پہلے ہی ہوچکی ہے۔ یہ فیصلہ عوام کی محبت میں نہیں شدید ردعمل کے خوف سے کیا گیا ہے۔ اور پہلی مرتبہ نہیں پانچویں بار کیا گیا ہے۔ یعنی حکومت کے مشیر مصر ہیں کہ بجلی کے نرخ بھی بڑھاؤ۔ بظاہر وزیراعظم کا فیصلہ عوام کو مزید دباؤ سے بچانے والا لگتا ہے لیکن اس کے ساتھ جو فیصلہ کیا ہے اس سے عوام مزید دباؤ میں آگئے ہیں۔ فیصلہ یہ ہے کہ پہلے بجلی چوروں کیخلاف کریک ڈاؤن ہوگا۔ پاکستان میں بجلی چور یا تو بہت بڑے لوگ ہیں یا بہت کم آمدنی ہیں اور کچی آبادیوں والے۔ کچی اور گنجان آبادیوں کے بجلی چوروں کے خلاف کارروائی تو اچھے اچھے نہیں کرسکے اور بڑے بڑے لوگوں کے خلاف کارروائی اس لیے نہیں ہو پاتی کہ ان کے اچھے اچھے لوگوں سے تعلقات ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ کریک ڈاؤن کراچی کی نجی کمپنی کے الیکٹرک نے کیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ کسی قاعدے قانون کے بغیر چھاپے مارتے ہیں کسی بھی گھر کا میٹر اکھاڑ کر لے جاتے ہیں الزام عاید کیا جاتا ہے کہ آپ کے گھر کی بجلی کے میٹر میں گڑ بڑ ہے ہم اسے اپنے ساتھ لے جارہے ہیں۔ پھر ان کی اپنی لیبارٹری میں اس کا معائنہ ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے ڈیڑھ لاکھ کی بجلی چوری کی ہے، ڈیڑھ لاکھ جرمانہ ورنہ گرفتاری۔ وہ لوگ منتیں کرتے ہیں پورے سال کے بجلی کے ادا شدہ بل پیش کرتے ہیں لیکن فیصلہ وہی ہوتا ہے جو کے الیکٹرک کی چھاپا مار ٹیم نے کردیا کسی جگہ شنوائی نہیں ہوتی۔ لوگ چار و ناچار جرمانہ بھی ادا کرتے ہیں اور نئے کنکشن کے لیے درخواست بھی دیتے ہیں۔ بجلی کمپنی کی جانب سے پاکستان کا قانون یہی کہتا ہے کہ اگر کسی گھر کے بارے میں کمپنی کو شک ہے کہ وہاں بجلی چوری کی جاتی ہے تو محلے کے معززین کے ساتھ اس گھر کے لوگوں کو بلا کر ان کے نوٹس میں لاکر میٹر نکالا جاتا ہے۔ لیکن قانون کس نے دیکھا ہے بدمعاشی کے ساتھ بلکہ عملاً بدمعاشوں کا ایک ٹولہ بھی ساتھ لایا جاتا ہے پولیس اور فاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے بھی ایک نجی کمپنی کی معاونت کے لیے موجود ہوتا ہے۔ یہ لوگ کسی بھی جگہ چھاپا مار کر بجلی چوری کا الزام لگا دیتے ہیں۔ لہٰذا بجلی کی قیمتیں بڑھانے یا بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے پہلے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر زور دینا چاہیے۔ ساری دنیا میں بجلی چوری بھی ہوتی ہے بجلی چوروں کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے لیکن اس کا ضابطہ ہوتا ہے کسی ایک نجی ادارے کو پولیس اور ایف آئی اے پر اختیارات نہیں دیے جاتے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھی چھاپے ماریں۔ خود کے الیکٹرک کے افسران کے بارے میں رپورٹس آچکی ہیں کہ وہ بھی بجلی چوری میں ملوث رہے ہیں۔ واپڈا کا حال تو بہت ہی برا ہے۔ پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں واپڈا افسران کرپشن کا گڑھ ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت کے وزرا اور اس میں شامل ارکان اسمبلی کی اکثریت پرانی کھڈری ہے اور وہ سارے نظام سے واقف ہے انہیں معلوم ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کے خلاف غم و غصے میں اضافہ کرے گا لیکن انہیں اور نئی حکومت کو یہ کون سمجھائے گا کہ وسائل میں اضافہ کرکے مسائل سے نمٹا جاتا ہے، کریک ڈاؤن کے ذریعے نہیں۔ ابھی تک پی ٹی آئی، ٹائیگر فورس، ٹاسک فورس، اٹیک اور کریک ڈاؤن کے چکر میں پڑی ہوئی ہے۔ اسے اس سے نکل کر حکومت کی طرح مسائل کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔ حکومت بجلی چوری میں ملوث عوام کے خلاف ضرور کارروائی کرے لیکن عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے والی بجلی کمپنی کے خلاف بھی کارروائی کرے۔ جعلی بلنگ اور بے تحاشا شکایات موجود ہیں۔ نیپرا کارروائی کا کہہ کر غائب ہوجاتی ہے۔ حکومت کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ سابق حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فوائد اٹھاتی تھی لیکن موجودہ حکومت تو ٹیکس چور کمپنیوں کے خلاف بھی کارروائی کرے۔جہاں تک بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنے اور پھر نہ کرنے کی بات ہے تو اس کا اصل مقصد عوام کو ذہنی طور رپ تیار کرنا ہے، اضافہ تو ہوکر رہے گا۔