سعودی امداد مگر کب تک؟

372

وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب کا کامیاب دورہ کر کے واپس آ گئے ہیں اور پاکستان کے لیے مزید قرض کا بندو بست ہو گیا ہے ۔ عمران خان ریاض میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کرنے گئے تھے جو ایسے حالات میں ہوئی ہے جب جمال خاشق جی کے پر اسرار قتل کے بعد خود سعودی حکومت ایک بین الاقوامی بحران میں مبتلا ہے ۔ مذکورہ کانفرنس سے خطاب کے بعد عمران خان نے سعودی فرماں روا ملک سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر وزراء سے ملاقاتیں کیں جو پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئیں۔ گو کہ سرمایہ کاری کانفرنس میں انہوں نے پاکستان کے اندرونی معاملات بالخصوص معاشی ابتری کے بارے میں جو کچھ کہا وہ حکمت کے منافی تھا کہ بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ملک میں سرمایہ کاری کون کرے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے تحت سرمایہ کاری کانفرنس میں اس لیے شرکت کی کہ پاکستان کی لڑ کھڑاتی ہوئی معیشت کو گرنے سے بچایا جائے جس کے لیے سعودی قرضوں کی اشد ضرورت ہے ۔ بہر حال سعودی عرب نے ایک بار پھر دوستی کا ثبوت دیا اور 6 ارب ڈالر کا پیکیج طے پا گیا جس کے تحت ایک سال کے لیے 3 ارب ڈالرز پاکستان کے اکاؤنٹ میں رکھے جائیں گے اور 3 ارب ڈالر کا تیل بھی اُدھار پر دیا جائے گا ۔ پاکستان میں آئل ریفائنری کی تعمیر میں بھی سرمایہ کاری کی جائے گی ۔ اس کے ساتھ ہی امکان ہے کہ چین دو ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات ایک ارب ڈالر پاکستان کے اکاؤنٹ میں رکھے گا ۔ عمران خان نے امید ظاہر کی ہے کہ اصلاحات اور مالی معاونت کے ذریعے صورتحال بہتر بنا لیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ انتباہ بھی کیا کہ تین سے چھ ماہ سخت ہیں اور مزید قرضے درکار ہیں ۔ آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کا خیال بھی ترک نہیں کیا گیا۔نومبر 2018ء میں اس سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے اور تباہ کن معاشی شرائط پر مزید سودی قرضے لیے جائیں گے ۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس آخری بارجا رہے ہیں ۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو لیکن یہ دعویٰ تو ماضی کی کئی حکومتیں کرتی رہی ہیں ۔ خود عمران خان نے13ستمبر 2011ء کو برطانوی اخبار گارجین کو دیے گئے انٹر ویو میں کہا تھا کہ ’’ ایک ملک جو قرضوں پر انحصار کرے اس سے موت بہتر ہے ، امداد ذلت آمیز چیز ہے ۔ جن ممالک نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے قرضے لیے وہاں غریب کی غربت اور امیر کی امارت میں اضافہ ہوا ‘‘ ۔ انہوں نے بالکل صحیح کہا تھا لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد اب خود عمران خان موت کا بندو بست کر رہے ہیں ۔ جو قرضے لیے جائیں گے ان کا بڑا حصہ تو پچھلے قرضوں اور سود کی ادائیگی میں نکل جائے گا اور ہاتھ خالی رہ جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف جیسے استعماری آلے اور سرمایہ دارانہ معیشت پر عمل کر کے کبھی بھی خوش حالی نہیں آ سکتی ۔ اس کا سب سے خراب پہلو یہ ہے کہ کفار کو ہمارے امور میں مداخلت کا موقع مل جاتا ہے اور وہ اللہ کی منشا کے بر عکس مومنوں پر غلبہ حاصل کر لیتے ہیں ۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اسلامی نظام معیشت پر عمل کیا جائے ۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے چند سال مشکل ہوں مگر ہمیشہ کے لیے استعماری طاقتوں اور سودی معیشت سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اب بھی تو یہی کہا جار ہا ہے کہ آئندہ چند ماہ سخت ہیں اور چند ماہ کیا پاکستان تو کئی عشروں سے سختی جھیل رہا ہے ۔ ایک بار ہمت کر کے اسلامی معاشی قوانین نافذ کر کے دیکھ لیا جائے ۔