سعودی امداد بجا لیکن۔۔۔

340

 

 

سالانہ تین ارب ڈالر کا تیل، ادائیگیوں کے توازن کے لیے تین ارب ڈالر، سعودی عرب کا پاکستان کے لیے مثالی معاشی پیکیج۔ بدھ 24اکتوبر 2018 پاکستان کے تقریباً تمام اخبارات کی شہ سرخی تھی۔ سعودی عرب نے ادائیگیوں کے توازن کے لیے پاکستان کو تین ارب ڈالر امداد تین ارب ڈالر کا تیل تین سال کے لیے ادھار دینے اور پاکستان میں پٹرولیم ریفائنری میں سرمایہ کاری کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ سعودی عرب کی امداد سے پاکستان کا معاشی بحران عارضی طور پر ٹل جائے گا، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے، اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آئے گی تاہم کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان کو پھر بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا لیکن اس پیکیج کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط میں زیادہ دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے سعودی یمن جنگ میں ثالثی کا عندیہ دیا ہے۔ یہ خوب ہے لیکن پاکستان کے لیے اہم بات یہ ہے کہ سعودی امداد کی وجہ سے وہ مشرق وسطیٰ یا کسی عالمی تنازعے کا حصہ نہ بنے۔
سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات آج کشیدہ ترین حالت میں ہیں۔ سعودی صحافی جمال خاشق جی کا معاملہ تو ابھی سامنے آیا ہے اس سے پہلے ہی ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ سعودی فرمانروا امریکی مدد کے بغیر دو ہفتے بھی حکومت نہیں کرسکتے۔ جواب میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب اپنے مفادات کا تحفظ کرنا جانتا ہے اور امریکا سے ہتھیار مفت میں نہیں لیتا۔ صدر ٹرمپ نے ان کی ذات کے حوالے سے تمام تر سعودی خیر سگالی کے باوجودکشیدگی کا یہ ماحول کیوں پیدا کیا۔ کھلے عام کیوں سخت الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں۔ امریکا روس اور دنیا کی دیگر طاقتیں اور حکومتیں اپنے مخالفین کو دنیا میں کہیں بھی قتل کرنے اور درندگی کا نشانہ بنانے کا بدترین ریکارڈ رکھتی ہیں پھر کیوں امریکا کی طرف سے جمال خاشق جی کے معاملے کو اس قدر ہوا دی جارہی ہے۔ اس کی وجہ امریکا کا پٹرو ڈالر ہے جس کا مستقبل امریکا کو خطرات کی زد میں نظر آرہا ہے۔ پٹرو ڈالر کیا ہے؟
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے نزدیک عالمی رہنماؤں کا برطانیہ میں ایک اجلاس ہوا جس میں بریٹن ووڈز ایگریمنٹ طے کیا گیا۔ اس معاہدے میں طے پایا کہ عالمی اجناس، سونے، چاندی اور تیل کی خریداری میں امریکی ڈالر کو کلیدی اہمیت حاصل ہوگی۔ امریکی ڈالر کی قدر 35ڈالر فی اونس سونے کے مساوی مقرر کی گئی۔ امریکا اس بات کا پابند تھا کہ جب بھی ڈالر کے عوض سونا طلب کیا جائے گا وہ سونا دینے کا پابند ہوگا۔ مزید یہ کہ وہ اسی قدر ڈالر چھاپے گا جتنا سونا اس کے پاس ہوگا۔ 1970کی دہائی کے آغاز میں ویتنام کی جنگ کی وجہ سے جب امریکی معیشت دباؤ میں آئی تو معاہدے میں شامل ممالک کو محسوس ہوا کہ امریکا ڈالروں کی چھپائی زیادہ تعداد میں کررہا ہے۔ اس بات کو آشکار کرنے کے لیے جب فرانس نے امریکا سے ڈالر کے عوض سونا طلب کیا تو امریکی صدر رچرڈ نکسن نے انکار کردیا۔ ساتھ ہی امریکا نے ڈالر اور سونے کی حوالگی کا یہ تعلق بھی ختم کردیا۔
امریکا نے 1973 میں سعودی عرب کو تحفظ دینے کے عوض سعودی عرب سے یہ معاہدہ کیا کہ سعودی عرب سے تیل کی خرید وفرخت کے تمام معاہدوں میں لین دین کی کرنسی امریکی ڈالر ہوگی۔ سعودی عرب کو امریکی بانڈز میں سرمایہ کاری پر منافع بھی ملے گا۔ اس معاہدے کے تحت سعودی عرب میں امریکی فوجی اڈے قائم کیے گئے۔ 1975 تک تیل پیدا کرنے والے تمام او پیک ممالک امریکی ڈالر میں تیل کی خریدو فروخت کے معاہدے میں شامل ہوگئے۔ یہاں سے پٹرو ڈالر کی اصطلاح نے جنم لیا۔ یہ اس جنگ کا آغاز تھا جس نے آج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جس کسی نے بھی پٹرو ڈالر کے خلاف سوچا یا اس کے خلاف کوئی عمل کیا امریکا نے دنیا بھر کے لیے اسے عبرت کی مثال بنا دیا۔
2000ء میں عراق کے سابق صدر صدام حسین نے امریکی پٹرو ڈالر کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تیل اور گیس کی فروخت یورپی یونین کی کرنسی یورو میں کرنے کا اعلان کیا۔ ادھر صدام حسین نے اس اعلان کو عملی شکل دی مغربی میڈیا میں اس کے خلاف ’’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘‘ کے پروپیگنڈے آغاز کردیا گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا اور اتحادی افواج افغانستان میں ایک بڑی جنگ میں پھنسی ہوئی تھیں اس کے باوجود عراق پر حملہ کرکے صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی۔ لیبیا کے معمر قذافی دوسرے سربراہ تھے جنہوں نے پٹرو ڈالر کو چیلنج کیا۔ قذافی نے تجویز دی تھی کہ افریقی ملکوں کا ایک اتحاد قائم کرکے ایک مشترکہ کرنسی کا اجرا کیا جائے جو سونے سے منسلک ہو اور اسی کرنسی میں سونے کا لین دین کیا جائے۔ اس منصوبے کے ساتھ ہی قذافی امریکا اور مغرب کے لیے انتہائی نا پسندیدہ ہوگئے۔ ان کے خلاف مغربی میڈیا میں پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا دیا گیا۔ عرب بہار میں نہ صرف ان کی حکومت ختم کردی گئی بلکہ انہیں بڑی بے دردی کے ساتھ سڑکوں پر گھسیٹ کرقتل کر دیا گیا۔ عرب ممالک پٹرو ڈالر کے خلاف کسی منصوبے کو بروئے کار نہ لاسکیں امریکا نے عرب ممالک کو ایک کے بعد دوسرے بحران میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کبھی القاعدہ، کبھی داعش، کبھی یمن اور شام میں خانہ جنگی امریکا عرب ممالک کے لیے پیہم بحران تخلیق کرنے میں مصروف ہے۔
عرب ممالک کچھ عرصے سے پٹرو ڈالر سے نجات کی کوشش میں ہیں۔ اس مرتبہ چین بھی ان کے ساتھ شامل ہے۔ سعودی عرب نے اپنے تحفظ کے لیے امریکی پناہ حاصل کی تھی لیکن اب سعودی عرب محسوس کررہا ہے کہ امریکا اس کے خلاف سازشیں کررہا ہے اور تحفظ کے نام پر اس سے زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے کے لیے اسے بلیک میل کررہا ہے۔ چین سعودی عرب سے پٹرولیم مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے 2016 میں دورہ سعودی عرب کے موقع پر تیل کی خریداری یوآن میں کرنے کی بات کی تھی اور سعودی عرب نے اس پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ چین کے ساتھ اتحاد میں روس اور ایران بھی شامل ہیں۔ ایران چین کو ایندھن کی فراہمی یوآن میں کررہا ہے۔ چین اپنی کرنسی کو لین دین کی عالمی کرنسی بنانے کے لیے پوری شدت کے ساتھ کوشاں ہے۔ چین کو پٹرو ڈالرکی مزاحمت سے روکنے کے لیے صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجاری جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ اب چین پر تجارتی پابندیاں لگائی جارہی ہیں تاکہ اس کی معیشت بیٹھ جائے اور وہ ڈالر کو چیلنج نہ کرسکے۔
چین نے سی پیک کا اعلان ایسے وقت میں کیا تھا جب دنیا پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دے رہی تھی۔ ہر طرف دہشت گردی تھی بجلی کا بحران اپنے عروج پر تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایسے میں 64ارب ڈالر کے مساوی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان۔ پاکستان نے دہشت گردی کی امریکی جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اس کے باوجود آج پاکستان امریکی غضب کا نشانہ ہے۔ امریکا مسلسل پاکستان کے خلاف سخت زبان استعمال کررہا ہے۔ پٹرو ڈالر بمقابلہ پیٹرو یوآن۔ محسوس ایسا ہورہا ہے کہ پاکستان ایک بارپھر ایک عالمی جنگ کا میدان بننے جارہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں سعودی عرب کی شمولیت اور گوادر کے ساحل پر ایک بڑی آئل ریفائنری قائم کرنے کا اعلان اور پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے 12ارب ڈالر کا حالیہ سعودی پیکج اسی سمت میں پیش رفت ہے۔ چین امریکا اور سعودی عرب کی یہ تکون بارود سے بھرا ہوا میدان ہے۔ پاکستان کو بہت محتاط رہنا ہوگا۔ بہت زیادہ۔