کشمیر جسے بھارت نے جہنم بنا دیا

302

 

 

ستائیس اکتوبر یوم سیاہ، ایک المیہ ہے اور سوز ہے، جان پر کھیلنے والے نوجوانوں کی جہاد کے میدان میں توپوں اور گولوں کے سامنے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرنے شکوہ اور جواب شکوہ کے بغیر جنت کمانے کشمیری عوام کو بھارت کے جہنم سے نجات دلانے کی آزاد شاعری ہے۔ یہ ایک تاریخ بھی ہے اور ایک تحریک بھی، شہداء کے پاکیزہ خون سے بہتی ہوئی ندی بھی، جو دنیا کے منصفوں سے سوال کر رہی ہے کہ بہتی ہوئی اس ندی کا شور سنو، کشمیر جہاں گلے کاٹے جارہے ہیں، خواتین کے دوپٹے عصمتوں کی ہمالیہ سے نیچے گرائے جارہے ہیں، بچوں بوڑھوں کی گردنوں کے خوان سے کیمیائی ہتھیاروں کی پیاس بجھائی جارہی ہے مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کشمیری مودی سرکار کی جنونیت اور بھارتی فوجوں کی درندگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی بھارتی فوج نے کنٹرول لائن کے قریب سندربانی سیکٹر میں دو کشمیری نوجوانوں کو پاکستانی درانداز قرار دے کر شہید کیا جن کی شہادتوں کی خبر پوری مقبوضہ وادی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور وادی میں شدید احتجاج شروع ہوگیا، بھارتی جبر کا کوئی ہتھکنڈا انہیں احتجاج سے روکنے میں کارگر نہ ہو سکا۔ مقبوضہ وادی کے کٹھ پتلی گورنر نے متعدد علاقوں میں کرفیو نافذ کیا مگر یہ حربہ بھی کشمیریوں کے پاؤں کی بیڑی نہ بن سکا اور انہوں نے حریت قائدین سید علی گیلانی‘ میر واعظ عمر فاروق‘ یاسین ملک کی کال پر نہ صرف ہڑتال کا سلسلہ جاری رکھا سڑکوں پر شدید مظاہروں اور بھارتی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جس پر بھارتی فوج نے زہریلی آنسو گیس‘ لاٹھی چارج اور مظاہرین پر سیدھے فائر کرکے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی مگر کشمیری مظاہرین منتشر ہونے کے بجائے ’’بھارتی فوجیو کشمیر چھوڑ دو‘‘۔ ’’ہم چھین کے رہیں گے آزادی‘‘۔ ’’قاتل قاتل بھارت قاتل‘‘ اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے۔ قابض فوج نے نہتے مظاہرین پر بے دریغ گولی چلائی جس کے نتیجے میں پچاس نہتے مظاہرین زخمی ہوئے اور ان میں سے چار زخمیوں نے اسپتال جا کر دم توڑ دیا۔ کٹھ پتلی انتظامیہ نے کشمیریوں کو رابطے سے روکنے کے لیے فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت نے اس پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا دفتر خارجہ نے بھی مقبوضہ وادی میں ایک حاملہ خاتون سمیت گیارہ کشمیریوں کی شہادتوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ بھارت کشمیر میں طاقت کے ذریعے زیادہ دیر تک قابض نہیں رہ سکتا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کشمیری آزادی سے کم کسی سمجھوتے پر تیار نہیں جب کہ بھارت نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ مذاکرات سے گریزاں ہے۔ مقبوضہ وادی میں ویسے تو ہر ڈھونگ انتخاب کو کشمیری عوام نے بری طرح مسترد کیا ہے اس بار بلدیاتی انتخابات میں کشمیریوں نے بائیکاٹ کیا کشمیری عوام کے ایسے ہی ردعمل پر جنونی مودی سرکار بوکھلائی ہوئی ہے جس نے مقبوضہ وادی کو کشمیریوں کے مقتل میں تبدیل کیا ہوا ہے اور گزشتہ ماہ بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ سے بھی دریغ نہیں کیا تھا تاہم وہ اس بھارتی جنونیت میں بال بال بچ گئے تھے۔ کشمیر کی تحریک آزادی میں شامل تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بھارت کی مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو اقوام عالم کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا اچھوتا استعمال شروع کیا تو بی جے پی سرکار کے انتہاء پسندوں کوچار سال قبل مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ پیلٹ گنوں کا استعمال شروع کرکے کشمیری نوجوانوں کی آواز بند کرنے کی کارروائیوں کا آغاز کیا جو ہنوز جاری ہیں۔ اس بھارتی درندگی کے دوران نوجوان کشمیری لیڈر برھان وانی سمیت اب تک سیکڑوں کشمیری شہید اور ہزاروں اپاہج اور بصارت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان بھارتی مظالم نے انسانی حقوق کے ہر علاقائی اور عالمی فورم کو جھنجوڑ کر بیدار کیا اور پوری اقوام عالم میں ان بھارتی مظالم کی صدائے بازگشت گونجنے لگی۔ چنانچہ ان مظالم کی انکوائری کے لیے اقوام متحدہ نے اپنے فوجی مبصر اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنا وفد مقبوضہ کشمیر بھجوایا۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اپنی رپورٹ میں اجاگر کیا۔ یہ رپورٹ
اقوام متحدہ میں آئی تودنیا بھر سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں جس سے مودی سرکار زچ ہوئی تو اس نے پاکستان کیخلاف نیا زہریلا پروپیگنڈا شروع کرکے کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھائی اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کا نیا سلسلہ شروع کر دیا۔
عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور پاکستان کی سالمیت کیخلاف بھارتی سازشوں کو پرزور انداز میں علاقائی اور عالمی فورموں پر بے نقاب کرنے کا سرعت کے ساتھ سلسلہ شروع ہوا جب کہ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم مودی کو دوطرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کا پیغام پہنچایا جس پر بھارتی قیادت نے بوکھلا کر پاکستان کیخلاف نئی سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ عمران خان نے یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نیویارک میں پاکستان بھارت وزراء خارجہ کی باضابطہ میٹنگ کی تجویز بھی پیش کی جو مودی سرکار نے پہلے تو قبول کرلی جس کی بنیاد پر میٹنگ کی تاریخ اور ایجنڈا بھی طے ہوگیا مگر پھر مودی سرکار یکایک اس آمادگی سے مکر گئی اور پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے یہ ملاقات منسوخ کردی بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیکس کی گیدڑ بھبکیوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور پھر انہوں نے جنگ کی دھمکی بھی دیدی جس کا دفتر خارجہ پاکستان اور ملک کی سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے مسکت اور جاندار جواب دیا جب کہ ملک میں بھارتی جارحانہ عزائم کے اظہار پر ٹھوس یکجہتی کی فضا بھی استوار ہوگئی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک گئے تو انہوں نے وہاں پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے علاوہ عالمی میڈیا کے روبرو بھی پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی عزائم بے نقاب کیے اور پھر جنرل اسمبلی میں اقوام عالم کی قیادتوں کے روبرو تقریر کرتے ہوئے عملاً بھارت کے بخیے ادھیڑ دیے۔ اس کے بعد سے کنٹرول لائن اور مقبوضہ وادی میں بھارتی جنونیت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اب خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کی سلامتی کیخلاف گیدڑ بھبکیاں لگاتے نظر آرہے ہیں۔
یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس گزشتہ ماہ بھارت کے تین روزہ دورے کے موقع پر یہ چشم کشا بیان دے چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال تشویشناک حد تک خراب ہوچکی ہے اس لیے مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کا حل نکالا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں پاکستان اور بھارت پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات پرامن طور پر حل کرنے کے لیے دوطرفہ مذاکرات کریں۔ اس حوالے سے یہ حقیقت یواین سیکرٹری جنرل سمیت تمام عالمی قیادتوں کے روبرو ہونی چاہیے کہ مذاکرات سے تو خود بھارت راہ فرار اختیار کرتا ہے جب کہ کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے نئے ہتھکنڈوں کے علاوہ کنٹرول لائن پر بھی بھارت نے ہی کشیدہ صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ درحقیقت امن تو خود بھارتی فوج اور جنونی مودی سرکار تباہ کررہی ہے جنونی مودی سرکار کی پیٹھ ٹھونکنے والی امریکی ٹرمپ انتظامیہ اب بھی بھارتی سرپرستی برقرار رکھے ہوئے ہے وہ ایک سعودی صحافی کے قتل پر تو انسانی حقوق کی دہائی دیتے ہوئے سعودی عرب پر چڑھ دوڑے ہیں مگر ٹرمپ انتظامیہ اور اس کے ہمنواؤں کو مقبوضہ کشمیر میں سال ہا سال سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آتی ہیں نہ اس پر جنونی مودی سرکار کے ہاتھ روکنے کی انہیں کبھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر ان کی جانب سے مودی سرکار کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی اسی طرح برقرار رکھی گئی تو عالمی امن تباہ ہوجائے گا۔