سرسید‘ فتاویٰ اور اکابرین

606

سرسید عقل کے اندھے ضرور تھے مگر قسمت کے دھنی تھے۔ انہوں نے قرآن کے بنیادی حقائق یا Facts کا انکار کیا۔ انہوں نے علم حدیث کو ناقابل اعتبار قرار دیا۔ انہوں نے اجماع کو رد کیا یہاں تک کہ انہوں نے قیاس کے تقاضے بھی پورے نہ کیے۔ اس کے باوجود سرسید طویل عرصے تک برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ ان کے خلاف خواص اور عوام میں ردِعمل اور اشتعال تو پیدا ہوا مگر سرسید کی صحت و سلامتی میں رتی برابر بھی فرق نہ آیا۔ سرسید ہمارے عہد میں ہوتے تو ان پر ان کی مذہب دشمنی اور مغرب پرستی کی وجہ سے ایک آدھ خودکش حملہ ضرور ہوچکا ہوتا لیکن سرسید کے عہد نے سرسید اور ان کی گمراہیوں کو برداشت کیا۔ معلوم نہیں یہ برداشت اس زمانے کا عیب تھی یا ہنر، لیکن اتنی بات ہمیں معلوم ہے کہ سرسید کے خلاف فتاویٰ کا انبار لگ گیا۔ کون سا عالم دین تھا جس نے سرسید کے خلاف فتویٰ نہیں دیا۔ فی زمانہ لوگ ان فتاویٰ کے مندرجات سے آگاہ نہیں۔ آگاہ ہوتے تو آج بھی سرسید کے حق میں کلمۂ خیر کہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا۔ سرسید کے خلاف سب سے سخت فتوے مکہ معظمہ اور مدینۂ منورہ کے بڑے علما کی جانب سے آئے۔ ان میں سے چند فتاویٰ کی نوعیت بنیادی ہے۔ حرمین شریفین کے علما سے جو سوال پوچھا گیا وہ یہ تھا۔
آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے باب میں جو ابلیس کے وجود خارجی سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے مراد قوت بہیمیہ ہے جو نفس انسان میں ہے، اور ملائکہ کا سجدہ آدم کے واسطے حقیقی سجدہ نہ تھا بلکہ اس سے قویٰ کا مطیع ہونا مراد ہے، اور ابیٰ واستکبر سے عدم اطاعت قوت بہیمیہ مراد ہے جو آدمی کو اغوا کرنے والی ہے نہ کہ حقیقی سجدے سے انکار کرنا، اور کہتا ہے کہ افلاک اجسام نہیں ہیں بلکہ ان سے فضائے بسیط یا سبع سیارات مراد ہیں، اور کہتا ہے کہ لونڈی غلام بنانا حرام ہوگیا ہے۔ اور کہتا ہے کہ معراج خواب میں ہوئی تھی اور جسم کے ساتھ آنحضرتؐ کے جانے سے انکار کرتا ہے، اور انکار کرتا ہے شق صدر آنحضرتؐ کا، اور کہتا ہے کہ گلا گھونٹیے پرند حلال ہیں، پس ایسے شخص کے باب میں کیا حکم ہے؟
(حیات جاوید۔ از مولانا حالی۔ صفحہ 286۔ بحوالہ سرسید اور ان کی تحریک۔ ضیا الدین لاہوری)
اس سوال کے جواب میں مکے اور مدینے سے جو فتاویٰ آئے وہ یہ تھے۔
شیخ احمد بن زین دجلان (مفتی شافعیہ مکہ معظمہ)
حسین بن ابراہیم (مفتی مالکیہ مکہ معظمہ)
شیخ عبدالرحمن بن شیخ عبداللہ سراج (مفتی حنفیہ مکہ معظمہ)
محمد بن عبداللہ بن حمید (مفتی حنابلہ مکہ معظمہ)
یہ شخص ضالّ اور مضلّ ہے بلکہ وہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے کہ مسلمانوں کے اغوا کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کا فتنہ یہود و نصاریٰ کے فنتے سے بھی بڑھ کر ہے، خدا اس کو سمجھے۔ واجب ہے اولوالامر پر اس شخص سے انتقام لینا۔ اس کو تنبیہ کرنی چاہیے اور اگر جاہل ہو تو سمجھانا چاہیے، پھر اگر باز آئے تو بہتر ہے ورنہ ضرب اور حبس سے اس کی تادیب کرنی چاہیے اگر دلاۃ اسلام میں کوئی صاحب غیرت ہو، نہیں تو خدا اس کو سمجھے گا اور اس کی ضلالتوں اور رسوائیوں کی سزا دے گا۔
شیخ محمد امین بابی (مفتی احناف مدینہ منورہ)
یہ شخص یا تو ملحد ہے یا شرع سے کفر کی کسی جانب مائل ہوگیا ہے، یا زندیق ہے کہ کوئی دین نہیں رکھتا، یا ابا جی ہے کیوں کہ منخنقہ کا کھانا مباح بتلاتا ہے۔ اور اہلِ مذہب (حنفی) کے بیانات سے مفہوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی توبہ گرفتاری کے بعد قبول نہیں ہوتی، پس اگر اس شخص نے گرفتاری سے پہلے توبہ کرلی اور ان گمراہیوں سے رجوع کی اور توبہ کی علامتیں اس سے ظاہر ہوگئیں تو قتل نہ کیا جائے ورنہ اس کا قتل واجب ہے دین کی حفاظت کے لیے، اور دلاۃ امر پر واجب ہے کہ ایسا کریں۔
یہ شخص ان عقاید کے باعث کافر ہے بلکہ اس کا پہلا عقیدہ اس کے کافر ہونے کے لیے کافی ہے اس لیے کہ وہ قرآن کا منکر ہے، تو اگر مسلمان تھا تو اب مرتد ہوگیا، اس نے ضروریات دین میں رسول اللہؐ کی تکذیب کی۔
(سرسید اور ان کی تحریک۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 56)
سرسید کے خلاف فتاویٰ صرف عالم عرب سے نہیں آئے بلکہ برصغیر کے جیّد علما نے بھی سرسیّد کے خلاف فتوے دیے۔ ان میں سے تین اہم فتوے یہ ہیں۔
اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی
حضرات نیچریہ شرع مطہر میں ان کے اور تمام مبتدعین کے احکام، جن کی بدعت درجہ کفر کو پہنچی ہو، احکام جمیع اقسام کفار سے اشد واعظم ہیں۔ ہندو کی بات کھلی مخالف کی بات ہے کہ ہر جاہل سا جاہل اس کے کفر پر مطلع اور اُسے اپنے مذہب سے جدا جانتا ہے۔ یہ حضرات کہ بظاہر کلمہ پڑھتے اور زبانی دعویٰ اسلام رکھتے، بلکہ اپنے ہی آپ کو سچا پکا مسلمان و خیر خواہ مومنین و ایمان بناتے ہیں مارِ آستین ہیں۔ ان کا زہر آلود افسوں سیفہ بدبخت پر جلد چلتا اور انجام کار ہلاک کردیتا ہے۔
عبدالحی لکھنوی (یکے از علمائے فرنگی محل)
وجود شیطان اور اجنّہ کا، منصوص قطعی ہیں اور منکر اس کا شیطان ہے بلکہ اس سے بھی زاید کیوں کہ خود شیطان کو بھی اپنے وجود سے انکار نہیں۔ اور وجود آسمان منصوص قرآنی ہے، منکر اس کا مبتلائے وسواس شیطانی ہے۔ جو شخص کہ اعتقادات اس کے فاسدہ ہیں، جو کہ سوال میں مسطور ہوئے ہیں، وہ شخص مخرب دین، ابلیس لعین کے وسوسہ سے صورت اسلام میں تخریب دین محمدی کی فکر میں ہے اور بنام تجدیدہ مدرسہ جدید افساد شریعت اس کی منظور نظر ہے۔ جو چیزیں کہ اس کے نزدیک موجب تہذیب ہیں، اہل سنت کے نزدیک باعثِ تخریب ہیں۔
کریم اللہ دہلوی
تعمیر کرنا اور کرانا بقول و فعل اس قائل کے ایسے مکان کا، اور معاونت کرنی ایسے طلبہ کی، اور اپنے مال معصوم کو غیر معصوم کرنا اور ہم پایہ ہونا اُس خوش عقیدہ کے کہ جس کا حال بدمآل اس سوال میں مذکور ہے بالکل باطل، اور ایسے مکان ناپاک کا نام مدرسہ رکھنا اور محل تعلیم و تحصیل سمجھنا آدمیت سے نکلنا ہے اور زمرۂ حیوانات میں داخل ہونا ہے۔
(سرسید اور ان کی تحریک۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 51)
ہمارے زمانے میں نیم مذہبی قسم کے لوگ سرسید کا دفاع کرتے ہیں تو سرسید کے بارے میں مولانا اشرف علی تھانوی کی رائے ضرور بیان کرتے ہیں چونکہ اکثر لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہ رائے کیا تھی اس لیے یہ رائے آپ کے مطالعے کے لیے حاضر ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا:
کام کرنے والوں کی دو تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک نیت اچھی مگر عقل اچھی نہیں، عقل اچھی ہے مگر نیت ٹھیک نہیں، تیسرے نہ عقل اچھی نہ نیت اچھی۔ سرسید کے متعلق ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ نیت اچھی نہیں ہے مگر یہ ضرور کہیں گے کہ عقل اچھی نہیں ہے کیوں کہ جس زینے سے مسلمانوں کو معراج ترقی پر لے جانا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کا سبب سمجھتے ہیں، یہی مسلمانوں کے تنزل کا سبب ہوگا۔
(مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی: ص 15)
مولانا اشرف علی تھانوی فاروقی تھے اور ان کے جدامجد سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا ہے کہ ہم تمہیں تمہاری نمازوں سے نہیں تمہارے افعال سے جانتے ہیں۔ نماز ایک ’’ظاہری عمل‘‘ ہے اور نیت ایک ’’باطنی شے‘‘ ہے۔ اب اگر انسان کو نماز سے نہیں پہچانا جاسکتا تو نیت سے کیا پہچانا جاسکتا ہوگا؟ نیت کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے۔ بلاشبہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے مگر نیت کے بارے میں فیصلہ ناممکن ہے۔ البتہ اعمال سے انسان بھی سمجھ میں آجاتا ہے اور اکثر صورتوں میں اس کی نیت بھی۔ یہ تو ایک مسئلہ ہوا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ سرسید کی عقل ان پر اتنی غالب تھی کہ اس نے سرسید کی نیت کو ایک بڑے صفر میں تبدیل کردیا تھا۔ سرسید نے قرآن کو غلط سمجھا تو عقل کی مدد سے نیت کی مدد سے نہیں۔ انہوں نے علم حدیث کا انکار کیا تو عقل کے توسط سے نیت کے توسط سے نہیں۔ انہوں نے اجماع پر خط تنسیخ پھیرا تو عقل کے ذریعے نیت کے ذریعے نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی بیمار کو صحت مند دیکھنا چاہتا ہو لیکن وہ اسے صحت مند بنانے کے لیے شعوری طور پر زہر کھانے کو دے دے تو ہم اس شخص کی نیت کا قصیدہ لکھیں گے یا اُس کی عقل کا ماتم کریں گے؟ سرسید نے کہا کہ مسلمان بیمار یعنی زوال پزیر ہیں اور ان کی صحت یا عروج کا راستہ یہ ہے کہ وہ انگریزوں کی غلامی دل لگا کر کریں اور اس غلامی کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھیں۔ مزید یہ کہ مغرب کے وہ علوم پڑھیں جو انسان کو خدا، رسولؐ اور اسلام سے بیگانہ کردینے والے ہیں۔ یہاں سرسید کی نیت ٹھیک ہوگی مگر ان کا عمل ہلاکت آفریں تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید کی نیت کبھی نہ ثابت ہونے والا مفروضہ ہے اور ان کی عقل سے پیدا ہونے والی سیکڑوں گمراہیاں ٹھوس حقیقت۔ چناں چہ سرسید کی نیت کی اچھائی کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔
مولانا حالی سرسید کے دوست بھی تھے اور شاگرد رشید بھی۔ انہوں نے حیاتِ جاوید کے نام سے سرسید کی جو سوانح لکھی ہے اسے ’’مدلل مداحی‘‘ کہا گیا ہے۔ بلاشبہ حالی صاحب علم تھے مگر انہوں نے سرسید کے بارے میں جو آراء دی ہیں ان میں دلیل تلاش کرنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا ایک انگریزی محاورے کے مطابق بھُس کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنا۔ مثلاً مولانا حالی نے ایک جگہ فرمایا ہے۔
’’آخر عمر میں سرسید کی خود آرائی یا جو وثوق کہ ان کو اپنی رایوں پر تھا، وہ حد اعتدال سے متجاوز ہوگیا تھا۔ بعض آیات قرآنی کے وہ ایسے معنی بیان کرتے تھے جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا کہ کیونکر ایسا عالی دماغ آدمی ان کمزور اور بودی تاویلوں کو صحیح سمجھتا ہے! ہر چند کہ ان کے دوست ان تاویلوں پر ہنستے تھے مگر وہ کسی طرح اپنی رائے سے رجوع نہ کرتے تھے‘‘۔
(سرسید اور ان کی تحریک۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 21)
اس اقتباس میں حالی ایک جانب تو یہ فرما رہے ہیں کہ سرسید بعض قرآنی آیات کے وہ معنی بیان کرتے تھے جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا، دوسری جانب وہ سرسید کو ’’عالی دماغ‘‘ بھی کہہ رہے ہیں۔ حالاں کہ ہماری روایت قرآن کے معنی کو مسخ کرنے والے شخص کو ’’عالی دماغ‘‘ کے بجائے ’’خالی دماغ‘‘ سمجھتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حالی کا حال بھی سرسید سے مختلف نہ تھا۔ اس اقتباس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ حالی ’’شخصیت پرستی‘‘ کے مرض میں بُری طرح مبتلا تھے اور ان کا نعرہ یہ تھا۔ قرآن و حدیث جائے پَر سرسید سے دوستی نہ جائے۔ صورتِ حال کا تقاضا تھا کہ حالی قرآن و حدیث اور ان کے فہم کو متعلق یا Attach ہو کر دیکھتے اور سرسید کو غیر متعلق یا Detach ہو کر دیکھتے مگر حالی نے اس کے برعکس قرآن و حدیث کو غیر متعلق یا Detach ہو کر دیکھا ہے اور سرسید کو متعلق یا Attach ہو کر۔ مسلمانوں کے لیے مذہب ہی سب کچھ ہے، مذہب نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ مسلمانوں کی دوستی اور دشمنی، قربت اور دوری اللہ اور اس کے دین کے حوالے سے ہے۔ لیکن یہاں حالی کی کیا شکایت کی جائے، سرسید پر اقبال تک نے ایک نظم لکھ ڈالی ہے جو بانگ درا میں شامل ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے سید کی لوحِ تربت۔ اس نظم کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔
تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری دستِ ارباب سیاست کا عصا
عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
اقبال نے ان شعروں میں سرسید کو مدبر بھی کہا ہے اور ان کی ’’آزادئ اظہار‘‘ کو بھی سراہا ہے۔ آزادئ افکار کے حوالے سے اقبال کا ایک شعر یاد آیا:
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادئ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
کاش اقبال کو سرسید کی آزادی افکار کے حوالے سے اپنا یہ شعر یاد رہتا۔ لیکن ہماری بعض بڑی شخصیتوں نے سرسید کے بارے میں وہی رائے دی ہے جو ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کی اجتماعی رائے ہوسکتی ہے۔ اس کی ایک مثال مولانا مودودی کی سرسید کے بارے میں رائے ہے۔ مولانا لکھتے ہیں۔
سرسید کے کام کو ’’اصلاح‘‘ اور تنقید عالی‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرنا اور یہ کہنا کہ ’’مسلمانوں میں ان کے بعد جتنی اہم مذہبی، سیاسی، اجتماعی، ادبی و تعلیمی تحریکیں اُٹھیں ان سب کا سررشتہ کسی نہ کسی طرح ان سے ملتا ہے‘‘ دراصل مغالطہ کی حد سے بھی بہت متجاوز ہے۔ سچ یہ ہے کہ 1857ء کے بعد سے اب تک جس قدر گمراہیاں مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہیں ان سب کا شجرہ نسب بالواسطہ یا بلاواسطہ سرسید احمد صاحب کی ذات تک پہنچتا ہے۔ وہ اس سرزمین میں تجددّ کے امام اوّل تھے اور پوری قوم کا مزاج بگاڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔
(ترجمان القرآن لاہور، جنوری 1941ء بحوالہ ادبیات مودودیؒ : ص 257۔ 258)
ایک اور جگہ مولانا نے سرسید کے حوالے سے لکھا:
’’مذہبی لحاظ سے انہوں نے بہت سی ٹھوکریں کھائیں اور کئی مسائل میں ان کی تحقیق ناقص تھی۔ مذہبی مسائل میں وہ گمراہ ہوئے لیکن ان کی نیت اخلاص پر مبنی تھی۔ وہ بدنیت گمراہ نہیں بلکہ مخلص گمراہ تھے۔ سابقہ مفسرین میں سے اگر بعض نے ایک ایک غلطی کی ہے تو سرسید نے چن چن کر ان تمام غلطیوں کو جمع کرکے ایک مجموعہ مرتب کردیا۔ انہیں یہ شوق تھا کہ مسائل کو عقل کے مطابق بنانے کے لیے ان کی ایسی تفسیر لکھی جائے جسے سب مان لیں۔ اس کے لیے سرسید نے نئے طرز کی Interpretation کا طریقہ معتزلہ سے سیکھا۔ فرق یہ ہے کہ معتزلہ فقط یونان و روم کی علمی دھاک سے مغلوب تھے، سرسید علمی اور سیاسی دونوں لحاظ سے مغلوب تھے، چناں چہ اس دہرے دباؤ میں آکر انہوں نے اپنی تفسیر لکھی جس کا نتیجہ ظاہر ہے۔‘‘
(سرسید اور ان کی تحریک۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 71)