تھر کی قسمت بدل رہی ہے؟

247

تھرپارکر کے باسیوں کی ابتر ہوتی ہوئی صورتحال پر چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار نے بھی نوٹس لے لیا ہے اور پیپلزپارٹی پاکستان کے شریک صدر نشین آصف علی زرداری بھی بولے ہیں کہ تھر کے عوام کو مشکل گھڑی میں چھوڑا نہیں جاسکتا۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن شاید کسی نے جناب زرداری کو یہ نہیں بتایا کہ یہ مشکل گھڑی آج نہیں آئی بلکہ کئی عشرے گزر چکے ہیں کہ تھرپارکر کے عوام مشکل میں ہیں۔ جبکہ گزشتہ 10 سال سے تو سندھ پر آصف زرداری کی پارٹی کی حکومت ہے لیکن اس معاملے کو نہ صرف ٹالا جاتا رہا بلکہ آنکھیں بند رکھی گئیں۔ ستم یہ بھی ہوا ہے کہ تھرپارکر کے لیے جب بھی امدادی سامان بھیجا گیا وہ بدعنوانی کا شکار ہوا۔ اناج کی بوریوں میں سے آدھی ریت نکلی اور گزشتہ دنوں جو امدادی سامان بھیجا گیا اس کی بندر بانٹ ہوگئی اور وہ بااثر افراد کے گھروں میں پہنچ گیا۔ جناب چیف جسٹس نے تھر میں اموات کے تسلسل پر حکومت سندھ کا زبانی موقف مسترد کرتے ہوئے تین ہفتے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی ہے اور کہا ہے کہ اپنے پیسوں سے ٹکٹ خرید کر تھرپارکر جاؤں گا۔ ہمیں یقین ہے کہ جناب چیف جسٹس گورنر سندھ عمران اسماعیل کی طرح 58 گاڑیوں کے جلو میں نہیں جائیں گے جس کی تاویل گورنر صاحب نے یہ پیش کی ہے کہ میں سرمایہ کاروں کو لے کر گیا تھا، کیا انہیں اونٹوں پر بٹھا کر لے جاتا۔ کرنا تو ایسے ہی چاہیے تھا کہ ان سرمایہ کاروں کو تھری عوام کی مشکلات کا تھوڑا سا اندازہ ہوتا۔ بہرحال یہ تاویل قبول کرلینی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ان سرمایہ کاروں نے تھر کے لیے کتنے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ تنظیم الخدمت برسوں سے تھرپارکر میں اپنے منصوبے چلارہی ہے اور تھر کے عوام کی خدمت بغیر کسی لالچ کے کررہی ہے۔ اس کے ذمے داران تو درجنوں گاڑیوں میں نہیں جاتے۔ تھرپارکر میں گورنر سندھ کی آمد پر ایک تماشا یہ ہوا کہ موصوف کے لیے سرخ قالین (ریڈ کارپٹ) بچھا یا گیا جس پر انہوں نے اور ان کے سرمایہ کاروں نے کھڑے ہوکر تصویریں کھنچوائیں۔ گورنر صاحب اتنی بڑی اور بھاری بھرکم شخصیت ہیں کہ وہ تھر کی تپتی زمین پر کھڑے نہیں ہوسکتے تھے جس پر تھر کی عورتیں تک ننگے پیر چلتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی تھر کے لوگوں کے لیے فیلڈ اسپتال اوردو ایمبولینس بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور امید ہے کہ اس پر جلد ہی عمل ہوجائے گا اور سندھ حکومت اسے صوبائی معاملے میں مداخلت قرار نہیں دے گی۔ آصف زرداری نے بھی تھر جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے اب تھر کی تقدیر بدل جائے گی۔ شاید بڑی بڑی شخصیات کی آمد سے ان غریبوں کی تقدیر بدل جائے۔ سندھ کے ایک سابق وزیر اعلیٰ کے لیے مٹھی میں بچھائے گئے لمبے چوڑے دسترخوان اور طرح طرح کے کھانوں کی تصاویر تو ٹی وی پر آگئی تھیں اور کھڑکی کے باہر غریبوں کی لائن لگی ہوئی تھی کہ شاید یہ خانہ بر انداز چمن روٹی کا کوئی تکڑا باہر بھی اچھال دیں۔ تھر میں بارشیں نہ ہونے سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی اشد ضرورت پینے کا پانی اور علاج کی سہولت ہے۔ الخدمت نے کسی سرکاری مدد کے بغیر وہاں کنویں بھی کھدوائے ہیں اور بلا تفریق مذہب لوگوں کو کاروبار کے لیے بلا سود قرضے بھی دیے ہیں۔ بڑے شہروں کے آرام دہ ماحول میں کام کرنے والی این جی اوز ادھر کا رخ بھی کریں۔