اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد؟؟

795

پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک اسرائیلی طیارے کی اسلام آبادآمد حکومت کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ وزیراعظم کے سوا تقریباً تمام اہم لوگ اس کی تردید کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ صدر مملکت کو بھی اس کی وضاحت کرنی پڑی۔ سول ایسوسی ایشن نے بھی تردید کردی ہے۔ لیکن تردید ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی۔ نواز شریف حکومت سے شکوہ تھا کہ وہ چپکے چپکے بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھارہی ہے لیکن یہاں تو معاملہ اسرائیل تک پہنچ گیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جو اسرائیلی طیارہ اسرائیلی وزیراعظم کو مسقط لے کر پہنچا تھا اس کے بعد وہی طیارہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا لیکن اسے عمان کی پرواز بنایا گیا اس کا فلائٹ کوڈ تبدیل کیا گیا اس طرح سول ایوی ایشن کی تردید ٹیکنیکل اعتبار سے درست ہے کہ کوئی اسرائیلی طیارہ نہیں اترا۔لیکن اس خبر دعوے اور تردید میں سے حقیقت کون سامنے لائے گا چونکہ پاکستان اسرائیل تسلیم نہیں کرتا اس لیے اس کا کوئی طیارہ پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اسے پاکستان میں داخل کرنے کا یہی طریقہ تھا جو اسرائیلی مصنوعات مسلم ممالک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فلائٹ کوڈ کی تبدیلی سے یہ اسرائیلی پرواز نہیں رہی۔ یہ صورتحال نہایت سنگین ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے آتے ہی ایسے ایسے کام ہورہے ہیں جن کے حقیقت بننے سے پاکستان کا سب کچھ ختم ہوسکتا ہے۔ پہلے قادیانیت نوازی، اس پر شور مچا تو ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں معاملات صاف نہیں ہیں۔ پھر ملعونہ آسیہ کا معاملہ اس پر بھی بات واضح نہیں ہیناموس رسالت کا قانون بھی خطرے میں ہے اور اب اسرائیلی طیارہ!!! اس طیارے میں کون تھا۔ کیا پیغام، کیا احکامات لایا۔ کون کس سے ملا۔ بات حقیقت ہے یا نہیں۔ قوم اندھیرے میں ہے وضاحتیں بھی مشتبہ ہیں۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ خفیہ مذاکرات نہیں کریں گے تو کیا علی الاعلان مذاکرات کرسکتے ہیں۔ صدر مملکت کہتے ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کررہے۔ یہ وضاحت کیوں کرنا پڑی۔ اور وہ بھی ترکی جاکر وضاحت کیوں کی۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔