پاکستان کا اقتصادی بحران سمٹتا محسوس ہورہا ہے۔ سعودی عرب کے بعد چین بھی پونے تین ارب قرض دے رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات سے بھی دو ارب ڈالر متوقع ہیں۔ ملائشیا سے بھی مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان قرض لینے سے انکار کرتے آئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کرپشن پر قابو پاکر، لوٹی ہوئی دولت کو وطن واپس لاکر اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ بھیجنے پر آمادہ کرکے قومی خزانے کو بھرا جاسکتا ہے۔ تاہم جلد ہی انہیں محسوس ہوگیا یہ طویل المدت منصوبے ہیں خالی خزانہ اس طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ملکی دولت لوٹنے والے ایسے محفوظ حصاروں میں ہیں، سرمایہ دارانہ عالمی نظام انہیں اس طرح تحفظ دے رہا ہے کہ انہیں گرفت میں لینا آسان نہیں۔ اس آگہی کے بعد وہ سعودی عرب تشریف لے گئے۔ وہاں سے بھی انہیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑا ہے۔ سعودی عرب سے امداد نہ ملنے کی ابتدائی ناکامی کے بعد وزیراعظم عمران خان کو ملنے والی حالیہ کامیابی ایک بڑی کامیابی ہے۔ آئی ایم ایف کے درپر جانا تو پھر بھی پڑے گا لیکن قدرے بہتر پوزیشن کے ساتھ۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر سات سے آٹھ ہفتے کی درآمدات کو کفایت کرسکتے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک تسلی بخش صورتحال ہے۔ پاکستانی معیشت کو سعودی عرب کی بیساکھی ملنے کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ اگلے روز چالیس ہزار پوائنٹ تک پہنچ گئی۔
عالمی صورتحال ماضی میں بھی پاکستان کو مشکل حالات سے نکالتی رہی ہے اس مرتبہ بھی پاکستان کی ڈوبتی معیشت کے لیے سہارا ثابت ہوئی۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں افغانستان کی صورتحال نے ہمیں امریکا کے لیے ناگزیر بنادیا۔ حکمرانوں کو سوچنا پڑتا تھا فالتو ڈالر کہاں خرچ کریں یا اپنے کس بینک اکاؤنٹ میں انویسٹ کریں۔ سعودی امداد کی ایک وجہ ہم نے پچھلے کالم میں بیان کی ہے۔ پٹرو ڈالر۔ اس کے علاوہ بھی ایک وجہ ہے۔ گزشتہ دوتین ہفتے میں ایک صحافی جمال خاشق جی کے قتل کی وجہ سے سعودی عرب جس طرح پوری دنیا کے غم وغصے کا نشانہ بناہے مغربی ممالک نے جس طرح بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے ایسے میں وزیراعظم عمران خان کی اس کانفرنس میں شرکت سعودی عرب کے لیے پیغام تھی کہ پاکستان ہر حال میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔ آرمی چیف بھی امداد کے بارے میں سعودی عرب کو آمادہ کرنے میں کا میاب ہوچکے تھے۔ یوں وزیراعظم عمران خان کو سعودی عرب جاکر محض کامیابیاں سمیٹنی تھیں جو انہوں نے خوب سمیٹیں اور دادکے مستحق قرار پائے۔
سعودی عرب سے واپسی پر وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں یمن میں ثالثی کا عندیہ دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کے اندرونی معاملات میں یوٹرن لیتے آئے ہیں اب انہوں نے عالمی معاملات میں بھی ایڑی کے بل ایک سو اسی ڈگری کے زاویے پر گھومنا شروع کردیا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور میں یہ عمران خان ہی تھے جو پارلیمنٹ میں اس قرارداد کے محرک اور روح رواں تھے کہ ہمیں پرائی آگ میں نہیں کودنا چاہیے۔ حالاں کہ سعودی عرب میں لگنے والی آگ پا کستان کے لیے پرائی نہیں اپنی آگ ہے۔ چھ ستمبر کو جی ایچ کیو میں یوم شہدا کے موقع پر بھی انہوں نے اپنے اسی موقف کا اعادہ کیا تھا۔ یمن کا معاملہ یہ ہے کہ ابتدا میں سعودی عرب کا خیال تھاکہ وہ آسانی سے حوثی قبائل پر قابو پالے گا لیکن امریکا کی شہ پر جس طرح ایران نے حوثی قبائل کی مدد کی اور حزب اللہ نے اس جنگ میں حصہ لیا سعودی عرب کے لیے اس دلدل سے باہر نکلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے ایران پر اثر انداز ہونا مشکل ہے لیکن اگر پا کستان اس سلسلے میں کچھ کرسکے تو یقیناًیہ اقدام ستائش کے قابل ہوگا۔
قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے اپوزیشن کے لیے اپنا رف اینڈ ٹف رویہ برقرار رکھا اور برملا کہا کہ قوم کی دولت لوٹنے والوں کو کوئی این آر او نہیں ملے گا۔ اپوزیشن کی طرف سے اس کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ این آر او مانگ کون رہا ہے۔ عمران خان جس طرح اس جملے کی تکرار کررہے ہیں لگتا ہے اندرون ملک یا پھر غالب یہی ہے کہ بیرون ملک نواز شریف کے باب میں ان پر دباؤ ہے۔ نواز شریف کی خاموشی اس خیال کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ مریم نواز کے ٹویٹس بھی صحارا کے سفر پر ہیں۔ زرداری صاحب سے گرینڈ الائنس بنانے کے معاملے میں بھی وہ تذبذب کا شکار ہیں۔ نواز شریف بھی غصے سے پیچ تاب کھاتے ہوئے نظرنہیں آتے جو جی ٹی روڈ کے سفر کے دوران دکھائی دیتے تھے۔ این آر او اور عمران خان کے تعلق پر کہا جارہا ہے کہ این آراو دینا عمران خان کے اختیار میں کب ہے؟ بات درست ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی تائید کے بغیر کسی طاقت کے لیے این آراو دینا ممکن بھی نہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’میری گرفتاری کوئی نئی بات نہیں‘‘۔ یہ بات درست ہے اس وقت سب سے زیادہ خطرے میں زرداری ہیں۔ ان پر منی الانڈرنگ کے سنگین الزامات ہیں۔ کسی بھی وقت ان کی گرفتاری ممکن ہے۔ اپوزیشن کا مضبوط اتحاد نواز شریف کے علاوہ ان کی بھی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن جس کے لیے تندہی سے کوشاں ہیں۔ زرداری کی طرف سے تو اس ضمن میں مثبت اشارے ہیں لیکن نواز شریف زرداری سے ملنے سے گریزاں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن حالیہ انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد ہی سے غصے میں ہیں۔ انتخابی نتائج نے انہیں مشتعل کردیا ہے۔ وہ کل جماعتی کانفرنس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں تاحال جس کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ نواز شریف موجودہ انتظام کو درہم برہم کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ ان کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ سعودی عرب سے واپسی کے بعد عمران خان کی تقریر پر بھی انہوں نے تبصرے سے گریز کیا ہے۔ زرداری بھی طبل جنگ بجانے کی پوزیشن میں نہیں۔ عمران خان کے خلاف ایک عوامی تحریک کے امکان ابھی دور دور نظر نہیں آتے۔
اگلے ماہ تک امید ہے کہ پاکستان اس اقتصادی بحران سے نکل آئے گا۔ مالیاتی خسارہ ایڈ جسٹ ہوجائے گا، زرمبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش حالت میں آجائیں گے، روپے کی گرتی ہوئی قدر سنبھل جائے گی، اسٹاک مارکیٹس معمول پر آجائیں گی۔ عمران خان پہلے حکمران نہیں ہیں جو اس بحران سے نمٹنے میں کا میاب رہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق سے لے کر پرویز مشرف اور بے نظیر سے لے کر زرداری اور نواز شریف سب کو ایسے ہی بحرانوں کو سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ایسے ہی طریقوں سے ان پر قابو پایا جنہیں بروئے کار لاکر عمران خان کا میاب ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس بحران پر قابو پانے کے نتیجے میں عام آدمی کو کیا ملے گا۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے پچھلے دوماہ میں جو مہنگائی کی گئی ہے کیا وہ واپس لے لی جائے گی؟۔ جنرل ضیا الحق سے لے کر آج تک ان بحرانوں پر قابو پانے کے باوجود ملک وقوم نے کوئی ترقی کیوں نہیں کی؟ ان بحرانوں پر قابو پانے کے باوجود بھی ملک بد سے بدتر صورتحال کا شکار کیوں ہوتا جارہا ہے؟ یہ سرمایہ دارانہ نظام، اس نظام میں کچھ تو ایسا ہورہا ہے جو کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ عجیب وغریب طرح انتخابی تیار کیے جاتے ہیں۔ عجیب وغریب طرح کے لوگ ان نتائج کے نتیجے میں اقتدار میں آتے ہیں۔ اس نظام میں طاقت حکومتوں کے پاس نہیں ہے۔ یہ نظام دنیا بھر میں ادھیڑ عمری کا شکار ہے۔ اس کی کمر جھکتی جارہی ہے۔ یہ نظام کہیں بھی ڈلیور کرنے میں کامیاب نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ نظام دنیا بھر میں عوام کے ساتھ کھلواڑ کررہا ہے۔ جمہوری سیاست میں تماشوں کے سوا کچھ نہیں۔ بجائے اس کے کہ اس نظام کو بدلا جائے دنیا بھر میں چہرے بدلے جارہے ہیں۔ یہ نظام نہیں ایک گھن چکر ہے جو دنیا بھرمیں ناکام ہورہا ہے۔