کیا ٹیک آف ایسے ہوتا ہے

374

عدالت عظیٰ کے سربراہ چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک نہایت دل خوش کن خبر دی ہے کہ پاکستان ٹیک آف کررہاہے، جلد ترقی کرے گا۔ چیف جسٹس کی خبر پر ہر پاکستانی کا دل خوشی سے جھوم اٹھا ہوگا۔ بلکہ پاکستانیوں کا دل تو ہمیشہ حکمرانوں اور طاقت کے مراکز کی جانب سے کسی بھی خوش خبری پر جھوم اٹھتا ہے لہٰذا چیف جسٹس کو داتا دربار میں دیکھ کر زائرین بھی جھوم اٹھے اور انہوں نے وہاں بھی انہیں ڈیم فنڈ کے لیے چیک دیے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر عجیب بات کی کہ ملک کی ترقی شروع ہوگئی ہے، خدا کرے دیانت دار، محب وطن قیادت ملے۔ اس سے از خود یہ سوال پیداہوتا ہے کہ جو قیادت ملی ہے کیا وہ دیانتدار، محب وطن نہیں ہے؟ لیکن یہ چیف صاحب کا فیصلہ تو نہیں ایک تبصرہ ہے اس سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ پاکستان ترقی کرے لیکن صرف ایک دن کی خبریں پڑھ کر ایسا لگتا نہیں کہ پاکستان ٹیک آف کررہاہے۔ ایک بڑی خبر یہ ہے کہ نئی حکومت اب تیسرے مہینے میں داخل ہوچکی ہے۔ ابھی تک پیسے جمع کرنے کی دھن میں ہے اور اس کے لیے 62 اداروں کی نجکاری کے لیے ریکارڈ طلب کرلیا۔ ابھی تو وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں نہیں بک سکیں صرف بھینسیں بکی ہیں لیکن حکومت وسیع پیمانے پر ادارے فروخت کرنے پر تل گئی ہے۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جو ایک چھوٹے سے گھرانے سے لے کر ایک کمپنی یا چھوٹی حکومت سے لے کر وفاق تک سب کو تباہی کے راستے پر لے جاتی ہے کہ آمدنی میں اضافے کے بجائے اشیا فروخت کرنا شروع کردی جائیں چھانٹی شروع کردی جائے۔ ایسے طریقوں سے خسارہ بھی کم نہیں ہوتا اور مسائل بھی حل نہیں ہوتے۔ بلکہ اسے ترقی معکوس کہاجاتا ہے۔ پھر تنزل کا سفر بھی چلتا رہتا ہے۔ اگر بلندی پر جاتا ہے تو آگے بڑھنے کے لیے اضافہ طاقت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ایک جگہ برقرار رہنے کے لیے بھی طاقت لگانا پڑتی ہے۔ پاکستان کو اگر ٹیک آف کرنا ہے تو منفی اور تنزلی والے راستے چھوڑ کر آگے بڑھنے کے راستے اختیار کرنا ہوں گے۔ اسی طرح دوسری بڑی خبر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ابھی تک شریف خاندان کو ہدف بناتے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ابھی تو ہم نے کرپشن کے خلاف کچھ کیا ہی نہیں ۔ جب ہم نے اقدامات کیے تو اپوزیشن کو جمہوریت خطرے میں نظر آئے گی۔ ان کا نشانہ بھی آج کل شہباز شریف ہیں۔ اگلے دن یہ بیان دیا کہ شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بننے دوں گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسمبلی کی اکثریت انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کرلے تو آپ کیا کریں گے۔ پھر جمہوریت کو خطرہ کس سے ہوگا۔ وزیراعظم کے رویے سے یا اسمبلی سے۔ آثار تو یہی بتارہے ہیں کہ حکومت ملک کے ٹیک آف کی راہ میں خود رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اایک اور بڑی خبر سامنے ہے کہ وفاقی وزیر اعظم سواتی کا فون سننے میں تاخیر پر آئی جی اسلام آبادکو ہٹایا گیا۔ تبدیلی کے نعرے اور کرپشن کے خاتمے کے دعوے کے ساتھ اقتدار میں آنے والی حکومت اس سے قبل ڈی پی او ننکانہ کا تبادلے محض خاور مانیکا کی شکایت پر کرچکی ہے۔ آئی جی اسلام آباد کے تبادلہ کو تو چیف جسٹس نے منسوخ کردیا۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کے رو برو بتایاکہ وزیراعظم کے زبانی احکامات پر آئی جی کو ہٹایا گیا۔ جب کہ وزارت کا موقف ہے کہ یہ سمری کئی ہفتوں سے وزیراعظم کے سامنے پڑی تھی۔ وزیراعظم کو فرصت نہیں مل رہی تھی، فرصت ملی بھی تو ہفتہ وار تعطیل کے روز عجلت میں۔ بہر حال ایسے فیصلوں اور اندازسے حکومت چلانے کے عمل کوٹیک آف نہیں کریش لینڈنگ ہی کہاجاسکتا ہے۔ یہ عجیب مسئلہ ہے خواہش تو ترقی کی ہو اور اقدامات تنزلی کے۔ یہ ہر حکمران کا مسئلہ ہوتا ہے اور اب تو اپوزیشن سے زیادہ حکمران گروہ میں یہ خیال زور پکڑنے لگا ہے کہ سال ڈیڑھ سال میں انتخابا ت ہونے والے ہیں اس سے پہلے جو کرنا ہے کر گزرو۔ لیکن گاڑیوں کے پروٹوکول سے اور لائنوں میں کھڑے ہونے کی تصویر کھنچوائی جارہی ہے راستے بند کیے جاتے ہیں۔اور ائرپورٹ پر تلاشی دینے کی تصویر کھنچوائی جاتی ہے۔ یہ سب لیپا پوتی اور دو عملی ہے اس کا نقصان بہر حال ملک کو ہوگا۔ اس رویے کی جلد از جلد اصطلاح ضروری ہے۔عمران خان یہ ضرور یاد رکھیں کہ حکومت میں آنے سے پہلے وہ جو کچھ کہتے رہے اور اب اس کے برعکس جو کررہے ہیں اس کا موازنہ تو ضرور ہوگا۔ آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر یہ تو ضرور یاد کرایا جائے گا کہ حکومت میں آنے سے پہلے انہوں نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے تبادلے پر کیا کہا تھا اور بار بار یہ کہاکہ سیاسی بنیادوں پر کسی کا تبادلہ نہیں ہوگا اور پولیس کو غیر سیاسی بنایاجائے گا۔ کنٹینر پر چڑھ کر وہ پولیس افسران کو یہ ہدایت دیتے رہے ہیں کہ سیاسی فیصلے تسلیم نہ کیے جائیں، اب اپنے ایک وزیر کی شکایت پر تحقیق کیے بغیر آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ کردیا جن کو شکایت یہ تھی کہ ایک ذاتی جھگڑے میں آئی جی نے ان کاٹیلی فون وصول نہیں کیا۔ شکایت یہ کہ ایک گائے اعظم سواتی کے فارم میں گھس گئی۔ایک بچے، لڑکی اور خاتون سمیت کئی افراد قید کرلیے گئے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ تبادلہ منسوخ کردیا تو وزیراعظم کی کیا عزت رہ گئی۔