وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک نیوز کانفرنس میں امریکا، برطانیہ،کینیڈا اور سعودی عرب جیسے اہم نو ممالک میں سفیروں کے تقرر کا اعلان کیا ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان ممالک میں سفیروں کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر کی گئی تھی اب ان کی جگہ تجربہ کار کیرئیر ڈپلومیٹس کا تقرر کیا گیا ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں سفارت کاری ایک سائنس کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ ایک سفیر محض نوکری پیشہ نہیں ہوتا بلکہ اپنی جائے تعیناتی پر اپنے ملک کا سب سے بڑا نمائندہ اور ترجمان ہوتا ہے۔ اس شخص کے چال چلن اور کارکردگی کا اثر صرف ماتحت عملے پر نہیں پڑتا بلکہ اسی سے ملک کا مجموعی تشخص بھی بنتا اور بگڑتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح ہر ادارہ زوال کا شکار ہوا اسی طرح وزرات خارجہ اور سفارتی شعبہ بھی سیاست زدگی کا شکار ہوگیا۔ اس اہم شعبے پر جمود طاری ہوگیا اور یہ بھی بہت سے بے کار محکموں کی طرح روزی روٹی کا بہانہ بن کر رہ گیا۔ حکمرانوں نے سفارت کاری جیسا باریک اور مشکل ترین کام صلاحیت، کارکردگی اور اہلیت کے بجائے سیاسی وفاداری، کاروباری شراکت، ذاتی رفاقت اور کبھی کبھار قصیدہ گوئی کی بنیاد پر سونپنا شروع کیا۔ سیاسی بنیادوں پر تعینات سفراء نے ریاست کی نمائندگی کرنے کے بجائے اپنے ممدوح اور محسن حکمرانوں کی تابعداری اور ترجمانی شروع کر دی۔ کچھ عرصہ پہلے ایک یورپی ملک میں سیاسی بنیاد پر تعینات سفیر اپنے محسن حکمرانوں کی بدعنوانی کی فائلیں ریڑھی پر دھکیلتے پائے گئے تھے۔ اسی عرصہ میں امریکا میں ایک ایسے سفیر تعینات ہوئے جو ذہنی اور عملی طور اپنے ملک کو بھول کر میزبان ملک اور جائے تعیناتی ہی کے ہو کر رہ گئے خیال کیا جاتا تھا کہ ان کا تقرر اسی ملک کی فرمائش پر ہوا تھا اور اس عہدے سے برطرفی کے بعد بھی وہ اسی ملک کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ ارسطو اور افلاطون سے زیادہ بڑی ذہنی سطح کی یہ ذاتِ شریف میڈیا پر اپنے ملک کا مقدمہ لڑنے کے بجائے کسی اور کا مقدمہ لڑتی نظر آتی اور وہ باتیں کہتی جو ان کا میزبان ملک سننے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ وہ ریاست کو جوابدہ نہیں تھے کیوں کہ ان کی تعیناتی خالص سیاسی بنیاد پر عمل میں آئی تھی۔
سفارت خانوں میں سیاسی افراد کی تعیناتی ہی ساری خرابیوں کی بنیاد نہیں رہی بلکہ کیرئیر ڈپلومیٹس کا کردار بسا اوقات ملک وقوم کو شرمسار کرنے کا سبب رہا۔ سفیروں اور سفارت کاروں کی اولادیں ان ملکوں میں ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتی رہی ہیں جن سے ملک کی نیک نامی پر حرف آتا ہے۔ اس طرح کی خبریں متعلقہ ملکوں اور خود پاکستانی اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں۔ چند دن قبل بیرونی دنیا میں بسنے والی ایک شخصیت نے مجھے بتایا کہ اس ملک کے سفیر کے صاحبزادے صبح وشام گوریوں کو لیے اودھم مچاتے اور چوکڑیاں بھرتے تھے۔ ابھی ایک لندن کی ایک تقریب میں پاکستانی ہائی کمشنر بے خودی کے عالم میں اسٹیج سیکرٹری سے مائیک چھین کر خود کمپیئرنگ اور گانا گانے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز حرکات کرنے لگے تھے۔ انہیں اسلام آباد طلب کرنے کی خبریں آئیں تھیں پھر کیا ہوا؟ کچھ پتا نہیں چلا۔ اسی طرح برسوں پہلے ایک بڑے فورم پر پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سفارت کار ایک غیرملکی عورت کے ساتھ رہ رہے تھے اور بعد میں کسی اختلاف کی بنیاد پر خاتون نے یہ معاملہ خوب اُچھالا تھا۔
پاکستانی سفارت خانوں اور سفارت کاروں کا میزبان ملکوں میں آباد پاکستانیوں کے ساتھ سلوک بھی قابل ستائش اور مثالی نہیں رہا۔ امریکا، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں آباد لوگ اکثر اپنے سفارت خانوں کی ناقص کارکردگی اور تساہل کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ سفارت خانوں میں مسائل زدہ عوام کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ یورپ وامریکا میں قائم پاکستانی سفارت خانوں تک میں سرخ فیتے اور عوام کو انسان نہ سمجھنے کا کلچر عام ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے پاکستانی سفارت خانوں میں چھوٹے چھوٹے کاموں میں تاخیر، بد سلوکی، غیر ضروری تساہل، تاریخ پر تاریخ دینے کے رواج پر فریاد کناں نظر آتے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سفارت کار باہر تو میزبان ملک کا کلچر اپنائے ہوتے ہیں مگر سفارت خانوں کے اندر پوری طرح پاکستان کے روایتی دفتری کلچر کا غلبہ ہوتا ہے۔ سفارت کار دنیا میں پاکستان کا اچھا امیج بنانے کے بجائے دن گزارنے اور مکھی پر مکھی مارنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے سفارت کاروں کے پاس غیر پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے لیے وقت ہی نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ پاکستان کو جس طرح ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ساکھ کے بحران کا شکار کیا گیا ہے اس سے نکلنے کے لیے انقلابی طریق�ۂ کار بلکہ ایک آپریشن کی ضرورت ہے۔
مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور اور اسے درپیش ایک بڑا سفارتی چیلنج ہے۔ اکثر سفارت خانوں میں تعینات سفیر اور سفارت کار اس مسئلے کی ابجد سے واقف نہیں ہوتے۔ جب انہیں مسئلے کی الف ب ہی کا پتا نہ ہو تو وہ دنیا کو اس کی باریکیوں سے کیوں کر آگاہ کر سکتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کی کشمیر پالیسی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہی۔ اب عمران خان کی حکومت نے سیاسی بنیادوں کے بجائے کیریئر ڈپلومیٹس کا سفیروں کے طور پر تقرر مسئلے کا کسی حد تک حل تو ہے مگر یہ سارے مسئلے کا حل ہر گز نہیں۔ اصل مسئلہ سفارت خانوں میں تعینات افراد کا مائنڈ سیٹ بدلنا اور سفارت خانوں کے اندر حقیقی کام کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔ ایسا نہیں پاکستان کا ہر سفارت خانہ اور سفارت کار اسی رویے اور کلچر کا خُوگر ہے یہ ایک عمومی کلچر کا معاملہ ہے۔ کہیں اور تو شاید تبدیلی آسانی سے آجائے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سفارت کاروں کی ذہنیت اور سفارت خانوں کا کلچر بدلے بغیر کم از کم سفارتی محاذ پر تبدیلی نہیں آسکتی۔