پچھلے دنوں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے عُمان کے خفیہ دورے کے فوراً بعد یہ خبریں گشت کر رہی تھیں کہ اسرائیل کا ایک طیارہ اسلام آباد آیا تھا۔ ان خبروں کے ساتھ یہ افواہیں بھی پھیلنی شروع ہوگئیں کہ غالباً اس طیارے میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو خفیہ مذاکرات کے لیے پاکستان آئے تھے۔ گو سرکار ی طور پر ان تمام افواہوں کی پرزور تردید کی گئی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان افواہوں کے بعد پاکستان کے میڈیا جس میں سوشل میڈیا پیش پیش یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے؟ اس سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں مہم جون 2003 میں کیمپ ڈیوڈ میں صدر بش کے ساتھ پرویز مشرف کی ملاقات کے بعد شروع ہوئی تھی۔ کیمپ ڈیوڈ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے اور تاریخی حقائق بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امریکا کے صدر جب کسی غیر ملکی سربراہ کا کسی نہایت مشکل، حساس اور پرخطر معاملے پر ہاتھ مروڑنا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتے ہیں تو وہ اُسے کیمپ ڈیوڈ مدعو کرتے ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ کے گھنے جنگل اور پہاڑوں میں نہ جانے کیا جادو ہے کہ یہ غیر ملکی سربراہ امریکی صدر کی بات مان ہی کر لوٹتے ہیں۔ صدر سادات اور یاسر عرفات کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ صدر سادات نے کیمپ ڈیوڈ ہی میں اسرائیل کے ساتھ امن سمجھوتا کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اسی طرح یاسر عرفات نے اوسلو سمجھوتا قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ 2003 میں کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات کے بعد جس تیزی سے پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ ابھرا، اس پر مبصرین کے مطابق بہت سے لوگوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ صدر جنرل مشرف اس مسئلے پر امریکی صدر سے وعدہ کر آئے ہیں۔
یہ بات معنی خیز تھی کہ کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات کے فوراً بعد پاکستان میں ایک نجی ٹیلی وژن چینل نے اس سوال پر ایک سروے کرایا۔ نتیجہ اس سروے کا حیرت اور تعجب کا باعث نہیں تھا کہ پاکستان کے عوام کی بڑی تعداد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ہے۔ اس سروے کے فوراً بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس سوال پر ایک خلاصہ تیار کیا جس میں یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے پاکستان کو سیاسی، فوجی اور اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے اس خلاصے کے بارے میں پاکستانی اخبارات میں جو خبریں شائع ہوئی تھیں ان کے مطابق یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کر لیا گیا تو پاکستان کو سیاسی، فوجی اور اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بناء پر امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں کی مخاصمت میں کمی ہوگی۔ یہ دلیل بھی پیش کی گئی تھی کہ اس اقدام سے اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کو روکنے میں مدد ملے گی اور پاکستان میں مغربی ملکوں کی سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا۔
یہ امر اہم ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد اسرائیل کے رہنما ڈیوڈ بن گوریاں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو پیغام بھیجا تھا جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ پاکستان، اسرائیل کو تسلیم کر لے لیکن قائد اعظم نے اس پیغام کا کوئی جواب نہیں دیا کیوں کہ 1940 میں لاہور میں مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس میں جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی، قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبہ میں برطانیہ کو خبردار کیا تھا کہ فلسطین کے عربوں کے خلاف جو سازش ہورہی ہے اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ہندوستان کے مسلمان کسی صورت میں فلسطینیوں پر فوجی بل پر کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔ البتہ جنوری 1953میں پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے جنہوں نے 1947 میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کے خلاف معرکتہ الارا تقریر کی تھی اور سارے عالم اسلام کے دل موہ لیے تھے، اس منصوبے کی منظوری کے بعد دمشق میں ایک مشہور مستشرق یوریل میڈ سے ملاقات کی تھی جو اس زمانے میں اسرائیل کی خفیہ سروس کے لیے کام کر رہے تھے۔ یوریل ہیڈ نے اپنی یادداشتوں میں یہ انکشاف کیا ہے کہ اس ملاقات میں ظفر اللہ خان نے یہ اعتراف کیا تھا کہ فلسطین کی تقسیم ہی اس مسئلہ کا بہترین حل ہے۔ پھر اپریل 1948میں ظفراللہ خان نے نیو یارک میں اسرائیل کے سابق صدر وائز مین سے ملاقات جس کے بعد ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ابا ایبان سے ملاقات کی جس میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر بات چیت ہوئی۔ 1957میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب شتابل روزینہ سے کھانے پر ملاقات کی تھی اور بقول شتابل روزینہ کے اس ملاقات میں مرحوم بھٹو نے کہا تھا کہ پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے کیوں کہ اسرائیل اب ایک حقیقت ہے۔
1970 میں جنرل ضیاء اردن میں پاکستان کی ایک بریگیڈ کی قیادت کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے اردن کے شاہ حسین کے خلاف فلسطینی شورش کچلنے میں اہم رول ادا کیا تھا جس کے لیے شاہ حسین نے انہیں اردن کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز سے نوازا تھا۔ انہوں نے مارچ 1986میں پی ایل او کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ جنرل ضیاء کے دور میں پہلی بار پاکستان اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس کے شعبہ میں تعاون کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ جنرل ضیاء نے آئی ایس آئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ رابطہ قائم کرے۔ رابطہ کا مرکز واشنگٹن تھا جہاں سی آئی اے رابطہ کار تھی۔ یہ زمانہ وہ تھا جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف آپریشن سائیکلون جاری تھا۔ اس کے بعد بھی آئی ایس آئی اور موساد کے درمیان رابطہ برقرار رہا اور آئی ایس آئی کے احمد شجاع پاشا کا براہ راست موساد سے رابطہ رہا۔ 1993 میں بینظیر بھٹو نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس زمانہ کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز پرویز مشرف کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ آئی ایس آئی کے روابط تیز تر کردیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ہدایت سے پہلے بینظیر بھٹو نے نیویارک میں اسرائیل کے ایک اعلیٰ ایلچی سے خفیہ ملاقات کی تھی۔
1998میں نواز شریف نے ایک خفیہ ایلچی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے تل ابیب بھیجا تھا۔ اس مشن کا مقصد اسرائیل کو یقین دلانا تھا کہ پاکستان اپنی جوہری ٹیکنالوجی ایران کو منتقل نہیں کرے گا۔ 2005 میں استنبول میں پاکستان اور اسرائیل کے وزراء خارجہ کے درمیان پہلی بارکھلم کھلا ملاقات ہوئی جس میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر غور کیا گیا تھا اس سے قبل نواز شریف نے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں تھے دفتر خارجہ کو ہدایت کی تھی کہ اسرائیل کے تئیں پاکستان کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔ نواز شریف کے دور میں ان کے صدر رفیق تارڑ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جب اکتوبر 1998 میں وہ ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے دورے پر تھے تو انہوں نے ایک استقبالیہ میں اسرائیل کے صدر وائز مین سے ہاتھ ملا کر کہا تھا کہ: ’’آپ امن کے آدمی ہیں اور آپ سے ملاقات ایک بڑا اعزاز ہے۔‘‘
2010 میں وکی لیکس میں امریکا کے اس سفارتی تار کا انکشاف کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے واشنگٹن کے توسط سے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ ہندوستان پر دہشت گرد حملہ ہونے والا ہے۔ احمد شجاع پاشا کا یہ اقدام، ممبئی کے حملے سے قبل کا ہے۔ غرض یہ ایک طویل داستان ہے کہ کس طرح پاکستان کے حکمرانوں کے، اسرائیل کے ساتھ خفیہ روبط رہے ہیں اور اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات استوار کرنے کے خواہاں رہے ہیں۔ آج جو لوگ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات استوار کرنے کی مہم میں مصروف ہیں انہیں غالباً اس بات کا علم نہیں کہ 1981 میں یہی اسرائیل تھا جس نے پاکستان میں کہوٹا کے جوہری ریسرچ کی تنصیبات پر ہندوستان کے اشتراک سے حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس حملے کے لیے ہندوستان کے ہوائی اڈوں کا استعمال اس منصوبہ کا اہم حصہ تھا۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو اپنے ذرائع سے اسرائیل کے اس منصوبے کا علم ہوگیا تھا اور پاکستان کی فضائیہ نے اسرائیلی حملہ کو ناکام بنانے کے لیے تمام اقدامات کر لیے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ فضائیہ کے تمام ہوا باز خود کُش حملے کرنے کے لیے تیار تھے۔ اسرائیل کو جب پاکستان کے ان اقدامات کے بارے میں علم ہوا تو عین وقت پر یہ منصوبہ ترک کردیا۔ تعجب ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حامی یہ نہیں دیکھتے کہ اسرائیل جو گزشتہ نصف صدی سے ارض فلسطین پر مسلط ہے فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودی بستیاں بسا کر ان کو بے دخل کر رہا ہے۔ کتنی بار محصور غزہ پر حملے کر چکا ہے اور اب بھی جب نہتے فلسطینی مظاہرین، اسرائیل کی سرحد تک جاتے ہیں تو ان پر اسرائیلی فوج بہیمانہ انداز سے فائرنگ کرتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان افراد کی اسرائیل سے کیسی اندھی عقیدت ہے کہ وہ یہ حقائق نہیں دیکھ سکتے۔