ملک ایسے ہی چلے گا؟

402

عدالت عظمیٰ کے سربراہ جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری افسران کو حکم دیا ہے کہ کسی کا غلط حکم نہ مانیں۔ آپ ریاست کے ملازم ہیں کسی کے ذاتی نہیں۔ کیایہ ہے نیا پاکستان۔ انہوں نے یہ ریمارکس آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کے احکامات کا نوٹس لینے کے بعد سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے باز پرس کرتے ہوئے دیے یہ وہی حکم ہے جس کے بارے میں عمران خان بھی اپوزیشن کے دور میں سرکاری افسران کو دیا کرتے تھے کہ زبانی اور غلط احکامات ماننے سے انکار کردیں، آپ ریاست کے ملازم ہیں۔ اب وزیراعظم بنتے ہی عمران خان کا رویہ بدل گیا۔ تبدیلی یہ آئی کہ وہ خود زبانی احکامات پر آئی جی کا تبادلہ کرنے لگے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کے رو برو یہی بیان دیا ہے۔ وزیراعظم اس پر کیا فرمائیں گے۔ عدالت نے اس مسئلے کا نوٹس کیا لیا اعظم سواتی نے ایسا ریورس گیئر لگایا کہ مقدمہ ہی واپس لے لیا اور کہاکہ میں غلطی سے جھگڑے کے مقام پر چلا گیا تھا، ہمارا راضی نامہ ہوگیا ہے جب کہ متاثرہ گروہ اس راضی نامے سے انکار کررہاہے۔ بلکہ یہ نیا موڑ بھی آیا ہے کہ اس گروہ کے نمائندوں نے کہاکہ ہم خانہ بدوش نہیں ہیں بلکہ پورا قبیلہ ساتھ کھڑا ہے۔ اعظم سواتی کو جواب دیناہوگا۔ انہوں نے وفاقی وزیر کے گھر کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس نے یہ نوٹس تو لے لیا کہ آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ غلط کیا گیا ریمارکس بھی سخت دے دیے۔ اب وضاحتی بیانات آئیں گے بلکہ آنے لگے ہیں۔ وزیر اطلاعات و نشریات نے تو حد کردی وہ براہ راست عدالت عظمیٰ کے مقابلے پر اتر آئے ہیں۔ اپنی کم علمی کا بھی ثبوت دیا ہے اور عزائم کا بھی اظہار کردیا ہے کہ پی ٹی آئی کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ سرکاری افسران غلط حکم نہ مانیں ریاست کے ملازم ہیں ذاتی نہیں اور وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں کہ اگر وزیراعظم آئی جی کا تبادلہ نہیں کرسکتا تو پھر الیکشن کرانے کا کیا فائدہ۔ گویا پی ٹی آئی کی حکومت پولیس افسران کے تبادلے کرانے کے لیے لائی گئی تھی۔ ان کی پوری ٹیم یہی کہہ رہی ہے کہ ملک کو بیورو کریسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑسکتے۔ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جب الیکشن ہوجائے اور وزیراعظم منتخب ہوجائے تو وہ زبانی احکامات پر کسی کو بھی تبدیل کرسکتا ہے۔ اگر ان عزائم کی تکمیل شروع ہوگئی تو ملک میں انتشار سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ پاکستان کسی ڈکٹیشن پر نہیں قانون کے مطابق چلے گا۔ پولیس میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں حکومت کی مرضی پر تبادلے نہیں ہوسکتے۔ لیکن وزیر اطلاعات اسے وزیراعظم کا حق قرار دے رہے ہیں۔ ایک سوال چیف جسٹس سے بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں اسے ایک اور بزدار کیس نہیں بننے دیں گے۔ لیکن بزدار کیس میں بھی یہی ہوا کہ معافی مانگ کر سب ٹھیک کرالیا۔ عدالت بتائے کہ اگر تبادلہ غلط تھا تو واپس کیوں نہیں ہوا۔ غلط تبادلہ کرنے والا محض معافی مانگ کر بچ جائے تو بہت سے لوگ معافی مانگنے کو تیار ہیں۔اور کیا کسی نے ڈی پی او رضوان گوندل کی بھی خبر لی کہ اس کی تعیناتی کہیں نہیں ہوئی چنانچہ اسے تنخواہ بھی نہیں مل رہی۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی حکم عدولی اور وزیراعظم کی اہلیہ کے سابق شوہر مانیکا کے کہنے پر اس ڈی پی او کو کب تک سزا دی جائے گی۔ لیکن جھگڑا تو یہی ہے کہ جو حکمران بنتا ہے وہ خود کو حرفِ آخر سمجھنے لگتا ہے۔ فواد چودھری، وزیراعظم، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سب کے سب جانتے ہیں کہ جو حکومت آئے گی اس کے وزیروں اور وزیراعظم کا حکم ماننا ہے اگر منع کیا تو ملازمت تباہ کردیں گے۔ چیف جسٹس جو کہہ رہے ہیں اس پر عمل در آمد اسی وقت ہوسکتا ہے جب زبانی احکامات پر آئی جی کے تبادلے پر وزیراعظم کے خلاف کارروائی کریں۔ کم از کم وزیراعظم کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ملک میں سرکاری افسران کے تبادلہ اور تقرر کا کیا طریقہ کار ہے۔ فواد چودھری سے تو کسی کو شکوہ نہیں کیونکہ وہ تو جنرل پرویز مشرف کی ترجمانی کرتے رہے ہیں جو ایک حکم پر آئی جی ، گورنر، وزیراعلیٰ، وزیراعظم سمیت کسی کو بھی تبدیل کردیتے تھے۔ چودھری صاحب کی بنیادی تربیت جہاں ہوئی ہے اس کی روشنی میں ان سے ایسے بیان کا صدور عین فطری ہے۔ البتہ عدالت عظمیٰ ان کے اس بیان کا نوٹس لیتی ہے یا نظر انداز کردیتی ہے، اس کا انحصار چیف جسٹس صاحب کی صوابدید پر ہے۔ عوام کو کیا مل رہا ہے کتنا ریلیف مل رہا ہے۔ کتنی آسانی دی جارہی ہیں اس کے لیے تو حکمرانوں کے پاس وقت ہی نہیں۔ البتہ جب ٹی وی کھولیں، اپوزیشن کی اے پی سی حکومت کا این آر او نامہ اور ایک دوسرے پر الزامات اسی کے مزے لیتے رہیں۔ مسائل تو تین سال بعد حل ہونا شروع ہوں گے۔ یہ بات تو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اسمبلی میں بھی کہہ چکے ۔ چیف جسٹس صاحب لگتا ہے ملک ایسے ہی چلے گا۔ممکن ہو تو اس پولیس افسر کی بھی خبر لیں جس نے اعظم سواتی کو خوش کرنے کے لیے بلوے اور مار پیٹ کے الزام میں ایک 12 سالہ طالب علم، ایک لڑکی اور معمر خاتون کو گرفتار کرلیا تھا۔ ان ’’خطرناک مجرموں‘‘ کا کہناتو یہ ہے کہ اعظم سواتی کے مسلح ملازموں نے ان کے گھر پر حملہ کیا تھا۔ یہ عین ممکن ہے۔ اعظم سواتی نے الزام لگایا کہ گائے نے ان کا باغ اجاڑ دیا جب کہ ااطلاع یہ ہے کہ وہاں درخت ہی نہیں ہیں۔ اعظم سواتی سے یہ بھی پوچھا جائے کہ وفاقی وزیر کئی برس سے سی ڈی اے کی چھ کنال زمین پر قبضہ کیے کیوں بیٹھے ہیں اور وہاں باڑھ بھی لگادی ہے۔ کیا یہ وفاقی وزیر کا حق ہے اور جناب وزیراعظم، امریکا اور برطانیہ کے قانون کا مطالعہ بھی کرلیں جہاں صدر اور وزیراعظم کسی افسر کو برخاست نہیں کرسکتا۔