توہین عدالت کی اوقات نہیں

415

آسیہ بی بی یا آسیہ مسیح کو رہا کردیا گیا۔ اس کی رہائی اور توہین رسالت کے الزام سے بری کرنے کا جواز اس آئین سے نکالا گیا ہے جس کی رو سے اسے سزائے موت سنائی گئی تھی۔ ماتحت عدالت نے مقدمہ سنا اور سزائے موت سنائی۔ عدالت عالیہ لاہور نے اپیل سُنی اور موت کی سزا برقرار رکھی۔ اسے رہا کرانے کی کوششوں میں ایک گورنر، ایک وزیر اور ایک عاشق رسول ممتاز قادری کی جان گئی اور اب 8 سال بعد آسیہ بے قصور ثابت کردی گئی۔ اگرچہ ہماری عدالتوں میں اس کی نظیر سامنے نہیں ہے کہ کسی ماتحت عدالت کے فیصلے کو غلط قرار دینے پر اس عدالت یا ججوں کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن اس مقدمے میں ایسا ہوسکتا ہے بلکہ ہونا چاہیے۔ ہر ایک کی زبان پر یہ بات ہے کہ اگر اب فیصلہ درست ہے تو پہلے والا کیا تھا۔ اگر پہلے والا فیصلہ غلط ہے تو 8 سال تک ایک بے قصور عورت کو اذیت میں رکھنے کا کیا جواز تھا۔ یہ فیصلہ دینے والے جج اور اسے برقرار رکھنے والے بنچ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اس لیے نہیں کہ اب عدالت عظمیٰ نے اسے غلط تصور کیا بلکہ اس لیے کہ فیصلہ کرنے والوں نے غلط فیصلہ کیوں دیا یہ معمول کے پلاٹ اور وراثت کے جھگڑے کا معاملہ نہیں تھا کہ 20 سال بعد فیصلہ درست کرلیا گیا۔ اس معاملے میں پوری اُمت مسلمہ کے ایمان اور جذبات تھے۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی ہورہی تھیں۔ مغرب اور پاکستان کے تعلقات کا مسئلہ تھا۔ سب سے بڑھ کر جس بنیاد کو آسیہ کی بریت کی دلیل قرار دیا گیا ہے کہ کسی کی جان لینے سے پہلے ہر طرح اطمینان کرلینا چاہیے، موت جیسی انتہائی سزا مشتبہ معاملے میں نہیں دی جاسکتی۔ آسیہ کی رہائی کے لیے جو دلائل دیے گئے ہیں ان کا جواب تو اس کیس کے مدعی وکلا دیں گے لیکن جناب چیف جسٹس آپ آسیہ کی ایک جان بچانے کی بات کررہے ہیں اس عورت کی جان بچانے کے چکر میں تین جانیں پہلے ہی جاچکی ہیں۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، اس کے بعد وفاقی وزیر شہباز بھٹی اور پھر ممتاز قادری شہید۔ اب جو بات کسی مرکزی میڈیا پر نہیں تھی اسے وزیراعظم عمران خان نے مرکزی میڈیا پر کہہ دیا کہ کچھ لوگ ایک چھوٹا سا طبقہ احتجاج کررہا ہے جو آرمی چیف کے غیر مسلم ہونے کا الزام لگارہا ہے اور ججوں کے واجب القتل ہونے کی بات کررہا ہے۔ ریاست ان کے خلاف ایکشن لے گی، ان کے بیان کے اثرات مزید سنگین ہوں گے۔
اب ذرا ان دلائل کی بھی بات کرلیں جو آسیہ مسیح کی رہائی کے حوالے سے دیے گئے ہیں۔ (1) واقعہ 14 جون 2009ء کا ہے، ایف آئی آر 19 جون کو درج کی گئی۔ مقدمہ کمزور ہوگیا۔ (2) مقدمے کی گواہ اسما اور معانیہ بی بی ہیں۔ دیگر 25 سے 35 خواتین بھی تھیں ان میں سے کوئی گواہی دینے نہیں آیا۔ (3) دونوں خواتین گواہوں نے کہا کہ ہمارا پانی کے معاملے پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ باقی گواہوں نے کہا کہ ایسا ہوا تھا۔ (4) اجتماع میں آسیہ پیدل آئی یا موٹر سائیکل پر لائی گئی یہ تضاد ہے۔ (5) جس اجتماع میں آسیہ نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اس کی تعداد مختلف گواہوں نے مختلف بیان کی ہے۔ ایک نے 100، ایک نے ہزار ایک نے 2 ہزار بتائی۔ لہٰذا شک کا فائدہ ملزم کو ملنا چاہیے۔ (6) اجتماع مختار کے گھر ہوا۔ عبدالستار کے گھر ہوا، رانا رزاق کے گھر ہوا یا حاجی علی احمد کے ڈیرے پر ہوا۔ (7) اجتماع کا وقت اور دورانیہ بھی متضاد ہے۔ (8) ملزمہ سے ایسے مجمع میں اعتراف کرایا گیا جس میں سیکڑوں لوگ موجود تھے اور اسے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ ایسے بیان کی قانونی حیثیت نہیں۔ (9) ملزمہ کی گرفتاری کے وقت میں بھی تضاد ہے۔ (10) آسیہ نے اپنے بیان میں حضورؐ اور قرآن کی مکمل تعظیم کا اظہار کیا ہے اور بائبل پر حلف اٹھانے کو تیار تھی لیکن تفتیشی افسر نے ایسا نہیں کرنے دیا۔
پہلی دلیل کہ ایف آئی آر 5 دن بعد درج کرنے سے مقدمہ کمزور ہوگیا۔ کب ایسا ہوتا ہے۔ ایسے تو درجنوں مقدمات ہیں۔ اور ایسے مقدمات میں تفتیش کے بعد ہی ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ دوسری دلیل پر سر ہی پیٹا جاسکتا ہے کہ باقی 25 سے 35 خواتین گواہی کے لیے نہیں آئیں۔ ارے تو جن دو خواتین نے گواہی دی وہ کافی نہیں اور باقی لوگ جو نہیں آئے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ان سے پوچھیں۔ لیکن کیا کسی نے مخالفت میں گواہی دی؟! اس طرح تو سیکڑوں لوگوں کے سامنے کراچی میں لوگ قتل ہوتے رہے ایک دو گواہ ہی آئے تھے۔ تو کیا سارے مقدمات مشتبہ ہوگئے۔ ایک اور دلیل ہے کہ آسیہ پیدل آئی یا موٹر سائیکل پر، اجتماع میں کتنے لوگ تھے، کس کے گھر ہوا، یہ تضادات نہیں ہیں۔ آسیہ پیدل آئی یا موٹر سائیکل پر، لیکن آئی تھی، اجتماع میں دو سو لوگ تھے یا دو ہزار لیکن اجتماع ہوا تھا، اور سب سے بڑی دلیل یہ دی گئی کہ ایسے مجمع میں آسیہ سے اعتراف کرایا گیا جو اسے مارنے پر تلا ہوا تھا۔ چیف صاحب پھر اس مجمعے کو کیا ہوا۔ آسیہ کے اعتراف کے بعد تو اسے قتل کردینا چاہیے تھا لیکن مجمعے کو سانپ سونگھ گیا یا کوئی جادو ہوگیا، آسیہ کو ایک تھپڑ بھی نہیں لگایا گیا معاملہ پولیس کے حوالے کیا گیا۔
آسیہ مسیح کیس لڑنے والے وکلا کہتے ہیں کہ ہمارا مقدمہ یہ تھا کہ آسیہ نے توہین رسالت کی اور اعتراف کیا۔ باقی چیزوں کی اہمیت نہیں اس نے پھر اس ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ میں کسی بھی الزام کی تردید نہیں کی، صفائی کے لیے مزید کچھ نہیں کہا، کسی نے نہیں کہا کہ ملزمہ کے جو الفاظ آپ بتارہے ہیں وہ اس نے اپنے منہ سے نہیں کہے۔ وکلا کا کہنا تھا کہ اس کیس میں وقوعے کے گواہ اور اس مقام پر موجود لوگوں سے گواہی لی گئی۔ سب سے اہم بات مقدمے کے انویسٹی گیشن آفیسر ایس پی محمد امیر بخاری نے ملزمہ سے کہا کہ اپنی صفائی میں جس جس کو لانا ہے پیش کرو تو اس کا خاوند راشد مسیح کرسچین ایسوسی ایشن کا نمائندہ آیا اور راشد مسیح نے ایس پی کے سامنے اور ملزمہ اور کرسچین ایسوسی ایشن کے سامنے کہا کہ میں آسیہ کی صفائی میں کوئی حلفیہ بیان دینے کو تیار نہیں اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ اس کی بیوی نے جرم کیا ہے اور وہ اس معاملے میں حلفیہ بیان نہیں دے سکتا تھا اس لیے اس نے اس کی صفائی میں بیان نہیں دیا۔ ختم نبوت وکلا فورم سے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ریویو پٹیشن کا عندیہ دیا ہے انہوں نے ان ہی عدالتوں پر اعتماد کا بھی اظہار کیا ہے۔
اب ذرا اس مقدمے کے فیصلے کے اعلان کی تاریخ دیکھیں، 2009ء کا واقعہ، 2010ء کی سزا، 2013ء میں ہائی کورٹ، 2015ء میں اپیل، 2018ء میں سماعت اور 31 اکتوبر کو عین غازی علم الدین کے یوم شہادت پر فیصلہ سنایا جائے یہ محض اتفاق ہے۔۔۔ یا واقعی ہمارے ججوں کو یہ تاریخ معلوم نہیں تھی۔ یا پھر مسلمانوں کے ذہنوں سے ایسے لوگوں کے نام کھرچ پھینکنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ وہی غازی علم الدین ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔ اگر آسیہ کے بارے میں ایک واضح مقدمے کا فیصلہ 31 اکتوبر ہی کو ہوتا اور وہی ہوتا جو ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کا تھا تو شاید ترکھانوں کے بیٹے کا ذکر نہ آتا۔ لیکن ہماری عدالت نے ثابت کردیا کہ ترکھانوں کا بیٹا پھر بازی لے گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے تو حد کردی۔ آپ ملک کے وزیراعظم ہیں، عدالت عظمیٰ کے ترجمان نہیں اور ناموس رسالت پر احتجاج اور دھرنے کرنے والوں سے یہ بے ہودہ بات کہی کی چھوٹا سا گروپ یہ کر رہا ہے، خود کیا مکہ مدینہ جانے کے لیے پانچ ماہ تک سڑکیں بند کرکے بیٹھے تھے۔ اس وقت غریب کا روزگار نہیں تباہ ہورہا تھا، اس فیصلے پر اعتراض کو توہین عدالت کہا جارہا ہے۔ لیکن قوم فیصلہ کرچکی ہے کہ توہین رسالت کے سامنے توہین عدالت کی کوئی اوقات نہیں اور 31 اکتوبر کو شیطانوں کی عید ہیلووین نائٹ بھی ہوتی ہے، یہ کس کو خوش کیا گیا ہے؟؟ پھر ممتاز قادری اور غازی علم الدین ہی پیدا ہوں گے آپ انہیں دہشت گرد کہیں یا قاتل۔۔۔ پیدا تو آپ ہی کررہے ہیں۔