امریکا کے مورخ کا اہم انٹرویو

457

امریکا کے معروف مورخ جوزف جے ایلس نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کئی ایسی باتیں کہی ہیں جن سے مغرب اور خود امریکا کو سمجھنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ جوزف جے ایلس کا مذکورہ انٹرویو امریکی رسالے ٹائم کے 23 اکتوبر سے 29 اکتوبر 2018ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔
جوزف سے سوال کیا گیا کہ کیا ہماری نیک فطرت ہمیں یعنی امریکیوں کو (تباہی سے) بچا سکتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں جوزف نے جو کچھ کہا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ انہوں نے کہا۔
“My view of the history is that trusting better an gles of our nature is a bad bet”
ترجمہ:۔ تاریخ کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان کی نیک فطرت پر اعتبار گھاٹے کا سودا ہے۔
مغربی دنیا کے دانش وروں اور مفکروں کا مسئلہ یہ کہ جب وہ لفظ Man استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد westren man ہوتا ہے۔ جب وہ civilization کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کا مطلب western civilization ہوتا ہے۔ جب وہ know ledge کا لفظ بروئے کار لاتے ہیں تو اس کے ذریعے وہ westarn knowledge کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جوزف جے ایلس کے مذکورہ جواب میں History سے مراد western history ہے اور Nature سے مراد مغربی انسان کا Nature یا مغربی انسان کی فطرت ہے۔
جدید مغربی تہذیب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا تصور انسان بہت پست ہے۔ مذہبی تہذیب انسان کو بنیادی طور پر ضمیر سے محروم وجود سمجھتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ انسان فطرتاً بد ہے۔ اس میں شر ہی شر ہے، مغرب کا علم سیاست انسان کو سیاسی حیوان سمجھتا ہے۔ مغرب کی معاشیات انسان کو معاشی حیوان سمجھتی ہے۔ جدید مغرب کے سب سے بڑے ماہر نفسیات فرائیڈ کے مطابق انسان ایک جبلی وجود کے سوا کچھ نہیں۔ مغرب کی حیاتیات کہتی ہے کہ انسان صرف ایک حیاتیاتی حقیقت ہے۔ اس کے برعکس اسلام کہتا ہے کہ انسان نیکی اور بدی کا مجموعہ ہے۔ اس کی فطرت میں تقویٰ اور فجور دونوں الہام کیے گئے ہیں چناں چہ انسان اپنے شعوری انتخاب سے اچھا یا بُرا بنتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب کا تصور انسان علمی اعتبار سے ایک ناقص اور یک طرفہ تصور ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مغرب نے اس تصور انسان کو عمومی بنادیا ہے یعنی اسے Generalize کردیا ہے۔ جوزف جے ایلس نے بھی یہی کیا ہے۔ انہوں نے مغرب کے تصور فطرت کو صرف مغرب تک محدود رکھنے کے بجائے پوری انسانیت کی فطرت پر منطبق کرکے پوری انسانی تاریخ کو مسخ کردیا ہے۔ مغرب کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے جوزف جے ایلس کی بات بالکل درست ہے۔ اس لیے کہ مغرب کے انسان کی فطرت پر واقعتاً اعتبار نہیں کیا جاسکتا اور جب بھی کسی نے مغرب کے انسان کی فطرت پر اعتبار کیا ہے اس نے واقعتاً جوزف کے الفاظ میں گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو مغرب کے جدید انسان کی تاریخ جنگوں کی تاریخ ہے۔ خون آشامی کی تاریخ ہے۔ 20 ویں صدی کو مغرب عقل کی صدی کہتا ہے۔ روشن خیالی کی صدی کہتا ہے۔ علم کی صدی کہتا ہے۔ سائنس کی صدی کہتا ہے۔ انسان پرستی کی صدی کہتا ہے۔ مگر مغرب کے بد فطرت انسان نے 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں ایجاد کی ہیں۔ ان جنگوں میں 10 کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اصول ہے کہ جنگ میں ایک آدمی مرتا ہے تو تین آدمی زخمی ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے دو عالمی جنگوں میں 10 کروڑ افراد ہلاک ہوئے تو 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغرب نے جو دنیا تخلیق کی وہ بھی چھوٹی بڑی سیکڑوں جنگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام جنگوں کی پشت پر بھی مغرب کھڑا ہے۔ کہیں اسلحہ فروخت کرنے کے لیے، کہیں کسی قوم کے مالی وسائل ہڑپ کرنے کے لیے، کہیں شیطان کی طرح دو فریقوں کو لڑا کر کمزور کرنے کے لیے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جوزف جے ایلس نے انسانی فطرت کی نیکی پر اعتبار کو نقصان کا سودا کہا ہے تو غلط نہیں کہا ہے۔ لیکن اگر وہ یہاں History کے بجائے wester history اور our nature کے بجائے our westren nature کی اصطلاح استعمال کرلیتے تو اچھا ہوتا۔
بعض لوگ ہمارے مذکورہ بالا خیالات کو ’’قیاس آرائی‘‘ خیال کرسکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ خیالات معروضی یا objective ہیں۔ اس کی ایک شہادت جوزف جے ایلس کے انٹرویو میں موجود ہے، ان سے پوچھا گیا کہ امریکا کے بانیوں کی وہ کون سی ناکامی یا خامی ہے جو ابھی تک ہمارے تعاقب میں ہے۔ اس سوال کے جواب میں جوزف نے کہا۔
“when the founders talked about “we the people” the were not talking about black people. They were not talking about women. They were not talking about Native Americans. when ever race enter the question, the founders are going to end up disappointing you”
ترجمہ:۔ ’’جب بانیان امریکا ’’ہم لوگ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے تووہ سیاہ فاموں، خواتین یا امریکا کے اصل باشندوں کی بات نہیں کرتے تھے۔ جب سبھی نسل کا سوال سامنے آتا ہے تو بانیانِ امریکا آپ کو مایوس کردیتے ہیں‘‘۔
اس جواب سے معلوم ہوا کہ جس طرح امریکا کے بانیوں کے لیے we the people سے مراد صرف سفید فام تھے اس طرح امریکا کے دانش وروں، مفکروں اور سیاست دانوں کے لیے انسان سے مراد مغربی انسان، تاریخ سے مراد مغرب کی تاریخ علم سے مراد مغربی علم اور فطرت سے مراد مغربی انسان کی فطرت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اب مغربی انسان کی فطرت کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں۔ دنیا کے جتنے سیکولر، لبرل، نسل پرست، مغرب کے مثالیوں یا ideals پر ایمان رکھنے والے اور مغرب کے علم کو اصل علم خیال کرنے والے ہیں وہ سب کے سب مغربی انسان ہی ہیں۔ خواہ مکے اور مدینے ہی میں کیوں نہ رہتے ہوں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جدید مغرب نے پوری انسانیت کی فطرت کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ جوزف کے مذکورہ بالا جواب سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ امریکا کے بانی نسل پرست تھے اور امریکا آج بھی نسل پرستی سے جان نہیں چھڑا پایا ہے۔
جوزف کے انٹرویو کا ایک سوال جواب سے بھی زیادہ اہم ہے۔ سوال یہ ہے۔
’’1960ء کے اوائل میں امریکا کے 80 فی صد لوگ کہتے تھے کہ انہیں اپنی حکومت پر اعتبار ہے۔ لیکن 1970ء کے وسط میں حکومت پر اعتماد کرنے والوں کی تعداد صرف 20 فی صد رہ گئی۔ بعدازاں صورتِ حال بہتر ہوئی مگر ہم ابھی تک حکومت پر اعتبار کی اس سطح کو نہیں چھو سکے ہیں جو 1960ء میں تھی۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اس وقت امریکا میں حکومت پر کتنے فی صد امریکی اعتبار کرتے تھے مگر جیسا کہ مذکورہ سوال سے ظاہر ہے یہ سطح بہرحال چالیس فی صد سے زیادہ نہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکا آزاد دنیا کا رہنما ہے۔ وہاں خواندگی کی شرح تقریباً سو فی صد ہے۔ امریکا روشن خیالی کا مرکز ہے۔ مگر امریکا کی حکومت اتنی بے اعتبار ہے کہ عوام کی اکثریت اس کو قابل بھروسا نہیں سمجھتی۔ لیکن امریکی حکومت کو عوام منتخب کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود عوام قابل اعتبار قیادت کو منتخب نہیں کرتے۔ امریکا جمہوریت کا مرکز اور اس کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا میں جمہوریت عوام کی اکثریت کے اعتبار کی حامل نہیں اور یہ مسئلہ وہاں گزشتہ 58 سال سے موجود ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ جمہوریت اتنی ناقص ہے تو اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگرچہ فی زمانہ سیاست کے حوالے سے اخلاقیات کا ذکر نہیں ہوتا مگر امریکا میں حکومتوں کے ناقابل اعتبار ہونے سے معلوم ہوا کہ امریکا خواہ کتنا سیکولر اور لبرل کیوں نہ ہو وہاں ابھی تک اخلاقیات کی اہمیت ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہاں کی سیاست میں حکومت کے قابل اعتبار ہونے یا نہ ہونے کا سوال ہی نہ اُٹھتا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ جوزف جے ایلس نے مذکورہ سوال کا کیا جواب دیا؟۔
انہوں نے فرمایا کہ 1960ء میں ویت نام کی جنگ نے امریکا کی ایک نسل کے لیے حکومت کو ناقابل اعتبار بنادیا تھا۔ دوسرا مسئلہ شہری حقوق کی تحریک تھی۔ اس تحریک نے سفید فاموں کو امریکی کنفیڈریشن سے دور کردیا تھا۔ تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ امریکی حکومت نے اسقاط حمل کو قانونی بنا کر Evangilical چرچ سے وابستہ لوگوں کو حکومت سے متنفر کیا۔ سوال یہ ہے کہ ویت نام کی جنگ نے امریکا کی ایک نسل کو حکومت سے بدگمان کیوں کیا؟ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ امریکا کبھی ویت نام میں مداخلت کا اخلاقی یا قانونی جواز پیش نہ کرسکا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ امریکی حکومت اپنے عوام کو تاثر دیتی رہی کہ وہ جنگ جیت رہی ہے حالاں کہ وہ جنگ ہار رہی تھی اور اس کی وجہ سے امریکا کو ویت نام سے ذلیل ہو کر نکلنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں معاملات اپنی اصل میں اخلاقی ہیں۔ شہری حقوق کی تحریک سے سفید فاموں میں حکومت کے حوالے سے ناراضی پیدا ہوئی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفید فام کتنے نسل پرست تھے اور ان کے نزدیک شہری حکومت کے اخلاقی سوال کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ یہی قصہ اسقاط حمل کو قانونی قرار دینے کا ہے۔ یہ مسئلہ بھی اپنی نہاد میں اخلاقی ہے۔
جوزف سے ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ آخر امریکیوں کو کیا چیز متحد کرسکتی ہے؟ اس کے جواب میں جوزف نے کہا کہ امریکیوں کو صرف بحران ہی متحد کرسکتا ہے۔ لیجیے اب تک یہ بات صرف پاکستانیوں کے بارے میں کہی جاتی تھی کہ پاکستانی صرف بحران سے متحد ہوتے ہیں۔ زلزلہ آیا تو پاکستانی متحد ہوگئے، سیلاب آگیا تو پاکستانی یک جان ہوگئے مگر اب امریکا کا ایک معروف مورخ کہہ رہا ہے کہ امریکیوں کو بھی صرف بحران متحد کرسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہورہا ہے کہ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستانیوں کو نظریے، مشترکہ تہذیب، مشترکہ تاریخ اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر متحد ہونے کے قابل نہیں چھوڑا اسی طرح دنیا کی سپر پاور بھی کسی نظریے، کسی تہذیب، کسی تاریک اور کسی مفاد سے متحد نہیں۔ مطلب یہ کہ جس طرح پاکستانیوں کو Sleep Walker بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح امریکی بھی Sleep Walker بن کر رہ گئے ہیں۔ چلیے پاکستانی اور امریکی کہیں تو مساوی الحیثیت ہوئے۔ یہاں ہمیں اپنا شعر یاد آگیا۔
نیند سے ڈھالے ہوئے لوگ مرے چاروں طرف
اور میں پروردہ دل رقصِ جنوں کرتا ہوا