فیصلہ عدالت کا ، توثیق وزیر اعظم کی

467

آسیہ ملعونہ کی رہائی کے فیصلے پر ملک بھر میں جو احتجاج ہوا وہ سب کے علم میں ہے۔ لیکن اس معاملے میں وزیر اعظم عمران خان بھی میدان میں آگئے اور گزشتہ بدھ کو اپنے خطاب میں انہوں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ مگر کیا اس سے پہلے بھی عدالت کے کسی فیصلے کی توثیق کسی وزیر اعظم کی طرف سے کی گئی اور کیا عدالتوں کے فیصلے کو اس کی ضرورت پڑی؟ اس سے تو یہ شک ہوگیا کہ فیصلے کا پس منظر کچھ اور ہے۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ کے بارے میں جو بات ہر ایک کے علم میں نہیں تھی اس سے بھی عمران خان نے قوم کے ہر فرد کو آگاہ کردیا کہ وہ غیر مسلم نہیں ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں قادیانی اور قادیانیت نواز طاقت پکڑتے جارہے ہیں اور گزشتہ دنوں ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کی کوشش اسی کا شاخسانہ تھی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی پر بھی قادیانی ہونے کا الزام لگانا بہت آسان ہے۔ غلط الزام لگانے والوں کی سختی سے پکڑ ہونی چاہیے لیکن کسی کی زبان نہیں پکڑی جاسکتی۔ سابق آمر جنرل پرویز مشرف پر بھی یہی الزام لگایا جاتا تھا جس کی انہوں نے بار بار تردید کی کہ وہ سنی العقیدہ مسلمان اور سید ہیں۔ ان کا عمل خواہ کچھ رہا ہو ، ان کی بات پر اعتبار کرنا چاہیے۔ شاید اس الزام کی وجہ یہ تھی کہ ان کی اہلیہ کے کچھ رشتے دار قادیانی تھے۔ جنرل باجوہ پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسی طرح تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے آسیہ کی رہائی کا فیصلہ دینے والے ججوں کو واجب القتل قرار دے دیا۔ یہ بھی انتہا پسندی اور ناقابل قبول ہے چنانچہ عمران خان نے ایسے لوگوں کے خلاف ایکشن لینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایک چھوٹے سے طبقے نے انتہائی غیر ذمے دارانہ ردعمل کا مظاہرہ کیا، ایسے عناصر سیاست چمکانے کے لیے ریاست سے نہ ٹکرائیں۔ لیکن عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ کسی چھوٹے سے طبقے کا نہیں بلکہ ملک کی اکثریت کا ہے جس میں بیشتر سیاسی اور دینی جماعتیں شامل ہیں اور ملک بھر کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ دھرنے دینے اور ریاست سے ٹکرانے کا راستہ عمران خان ہی نے دکھایا ہے۔ انہوں نے 2014ء میں اسلام آباد میں 146 دن کا ریکارڈ دھرنا دیا تھا اور اسی اثنا میں پارلیمان اور پی ٹی وی کی عمارت پر حملے بھی ہوئے تھے۔ اس مثال پر عمل کرتے ہوئے تحریک لبیک نے راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر طویل دھرنا دیا جو فوج کی مداخلت اورنقد رقم تقسیم کرنے سے ختم ہوا۔ احتجاج کی حمایت مفتی اعظم مولانا رفیع عثمانی نے بھی کی ہے لیکن قانون کے دائرے میں رہ کر اور توڑ پھوڑ سے گریز کرتے ہوئے۔ مفتی منیب الرحمن، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا فضل الرحمن،سمیع الحق، سینیٹر سراج الحق اور حفیظ جالندھری جیسے علماء نے فیصلے پر احتجاج کی حمایت کی ہے اور اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت قبول نہیں ۔ علماء کرام نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا بڑا بینچ بنا کر فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ احتجاج کرنے والے علماء کرام کی بڑی طویل فہرست ہے تو کیا یہ بقول عمران خان، چھوٹا سا طبقہ ہے؟ آسیہ مسیح کو رہا کرنے کا فیصلہ برطانوی پارلیمنٹ میں بڑی خوشی سے سنایا گیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ 20جنوری 2018ء کو کراچی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبا ر میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ یورپی یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر پاکستان G.P پلس میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے آسیہ مسیح کو رہا کرنا ہوگا۔ یورپ کی خواہش پوری ہوگئی لیکن یہ شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں کہ پاکستان پر بیرونی دباؤ بڑھ گیا ہے اور قرضے لینے کے لیے ابھی کئی شرائط کو تسلیم کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم عوام کو احتجاج سے رو ک رہے ہیں اور اس پر اکسانے والوں کے خلاف ریاستی طاقت سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راستے اور کاروبار بند کرا دینے سے عوام پریشان ہوتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر موجودہ صدر مملکت عارف علوی کا ایک پرانا خطاب چل رہاہے جس میں وہ اعلان کررہے ہیں کہ پورا کراچی بند رہے گا۔ اس وقت تحریک انصاف کی طرف سے ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ کیا آج بھی صدر مملکت یہ اعلان کرنا پسند کریں گے ؟ اس وقت بڑی سیاسی جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی نہ صرف خود حمایت کی ہے بلکہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اصرار کیا کہ قومی اسمبلی سمیت ملک کے تمام اداروں کو عدالت عظمیٰ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ انہوں نے حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کی یقین دہانی کرادی ہے۔ ان کے والد آصف زرداری نے بھی حکومت سے مل کر چلنے کی پیش کش کی ہے۔ پیپلز پارٹی کا مسئلہ اس وقت آصف زرداری کو نیب سے بچانا ہے لیکن کیا ایسا ہوسکے گا؟ انہوں نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سیف الرحمن کی طرح کسی اور کو ان کے پیر پکڑ کر معافی مانگنا پڑے۔ یہ نیب کی طرف اشارہ تھا۔ اب ہنگامہ سرد کرنے کے لیے بہتر ہے کہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے فل بینچ میں پیش کردیا جائے اور دوبارہ سماعت کی جائے۔ اس اثنا میں آسیہ مسیح کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ترجمان فواد چودھری بھی دھمکیاں دینے اور لوگوں کو اکسانے سے گریز کریں۔