معاہدہ تو ہوگیا۔ رٹ کہاں گئی

703

حکومت اور دھرنا دینے والی تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ طے شدہ تھا۔ آسیہ ملعونہ کے مقدمے کے فیصلے سے قبل تحریک لبیک کے کارکنان کو سڑکوں پر پہنچنے کی ہدایت مل چکی تھی اس طرح پوراکنٹرول تحریک لبیک کے پاس آگیا تھا۔ پھر جب تحریک لبیک کے ایک رہنما پیر افضل قادری نے نامناسب الفاظ استعمال کیے تو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے واضح دھمکی دی کہ حکومتی رٹ قائم کی جائے گی ایسے الفاظ قبول نہیں کیے جائیں گے۔ تاہم 3روز تک ملک بند کر کے اربوں روپے کانقصان کر کے حکومت اور تحریک لبیک نے 5نکاتی معاہدہ کرلیا ہے اور معاہدے پر تحریک کے سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری نے دستخط کر کے ریاستی رٹ قائم کردی ہے۔ معاہدے کے مطابق آسیہ مسیح کے مقدمے میں نظر ثانی کی جو اپیل دائر کی گئی ہے حکومت اس پر معترض نہیں ہوگی۔ یہ مدعیان کا قانونی حق ہے۔ دوسری یہ ہے کہ آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے قانونی کارروائی کی جائے گی۔ تیسری شق کے مطابق آسیہ کی بریت کے خلاف تحریک میں جوشہادتیں ہوئی ہیں ان کے بارے میں قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ مزید یہ کہ اس تحریک کے دوران جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں انہیں فوراً رہا کیا جائے گا۔ اور پانچویں چیز یہ کہ اس تحریک کے دوران جس کی بلاجواز دل آزاری ہوئی تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے۔ گویا یہ معاملہ امت مسلمہ کا نہیں بلکہ صرف تحریک لبیک اور حکومت کا تھا۔ اس معاہدے کی جو نقل سامنے آئی ہے اس میں آسیہ کا نام اس طرح لکھا گیا ہے جس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کے اردو ترجمے میں لکھا گیا ہے۔ اس کی انگریزی میں آسیہ کو عاصیہ قرار دیا گیا ہے یعنی گناہ گار۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قوم تین روز سے صرف اس معاہدے کے لیے سڑکوں پر تھی جس کے پہلے نکتے پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ نظرثانی کی درخواست حکومت پاکستان کو دینی چاہیے تھی پنجاب کے سابق وزیر کو نہیں۔ حکومت کا یہ کہنا کہ ہم اس پر اعتراض نہیں کریں گے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ہے تاکہ بیرونی دباؤ نہ آئے کہ ہم نے تو اس پر نظرثانی کی اپیل نہیں کی ہے۔ بہرحال یہ فیصلہ مستحسن ہے کہ آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے گا۔ اور یہ جو شق ہے کہ گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے گا تو ایسے معاہدوں میں یہ ہوتا ہے۔ آخری شق آرمی چیف اور ججوں کے بارے میں بیان پر معذرت لگتی ہے۔ حالاں کہ اس میں وضاحت نہیں ہے کہ معذرت کس سے کی گئی ہے لیکن معذرت قبول کرلی گئی ہے اس لیے سارا میڈیا مبارک سلامت کہہ رہا ہے۔ بہرحال عوام نے اس معاہدے پر سکھ کا سانس لیا ہے کیوں کہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ تین روز سے ریاست کے بجائے رٹ ان کی قائم تھی جو سڑکوں پر تھے اور دھرنادیے ہوئے تھے۔ اس دوران میں پورا ملک بند پڑا رہا۔ کاروبار اور دکانیں بند ہونے سے کئی ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال کی دھمکیوں نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے عوام کو دھمکا کر ثابت کردیا ہے کہ عدالتی فیصلے میں حکومت بھی شامل ہے، اس کی مجبوری اپنی جگہ مگر دھمکی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ اس ضمن میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار فواد چودھری نے آگے بڑھ کر یہ تک کہہ دیا کہ ’’ کوئی دھوکے میں نہ رہے کہ ریاست کمزور ہے، پتا بھی نہیں چلے گا کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا‘‘۔ لیکن یہ کوئی نئی یا عجیب بات نہیں۔ برسوں سے یہ ہو رہا ہے کہ لوگوں کو اٹھا کر غائب کردیا جاتا ہے اور ان کو یا ان کے لواحقین کو پتا بھی نہیں چلتا کہ کہ کیا ہوا، یہ لوگ کہاں غائب کردیے گئے۔ کچھ لوگ واپس آبھی جاتے ہیں تو خوف سے ان کی زبان بند ہوتی ہے اور وہ بتا نہیں پاتے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اب بھی کتنے ہی لوگ غائب ہیں ۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ پاکستان کو بنانا ریپبلک نہیں بننے دیں گے لیکن بنانا ریپلک وہی تو ہوتی ہے جہاں آئین و قانون کی بالادستی نہ ہو اور حکمران من مانی کرتے رہیں، ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر حرف قانون سمجھا جائے۔ صرف ٹیلی فون کر کے پولیس کے کسی اعلیٰ افسر کو معطل کردیا جائے اور اس پر یہ کہا جائے کہ اگر وزیر اعظم یہ بھی نہیں کرسکتا تو پھر الیکشن لڑنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ ایک طاقت ور وزیر معمولی سی بات پر کسی غریب کے گھر پر چڑھائی کردے اور بچوں اور عورتوں کو قید میں ڈلوادے۔ وزیر اعظم کو اتنی توفیق نہ ہو کہ غریب اور مظلوم افراد کی بات بھی سنیں گو کہ دعوے یہ تھے کہ غریب کو انصاف ملے گا اور نئے پاکستان میں سب برابر ہوں گے۔ عدالت عظمیٰ کو پوچھنا پڑتا ہے کہ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ جس ملک میں کوئی146 دن تک بغیر کھٹکے دھرنا دے تو کیا ایسے ملک کو بنانا ریپبلک نہیں سمجھا جائے گا۔ سابق وفاقی وزیر خواجہ آصف نے بھی سوال اٹھایا ہے کہ ’’ عمران نے دھرنوں کی ریت ڈالی تب ٹھیک تھے یا آج ؟ ‘‘۔ یہ بھی تو عمران خان ہی نے کہا تھا کہ امن و امان کے لیے رینجرز کو طلب کرنے کا مطلب ہے کہ ریاست ناکام ہوگئی۔ اور اب احتجاج کو ختم کرانے کے لیے فوج اور رینجرز طلب کی تو کیا یہ درست ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان چین چلے گئے ہیں۔ ان کو اس موقع پر ملک ہی میں ہونا چاہیے تھا۔یہ اعتراض پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں بھی کیا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ 1977ء میں جب ملک بھر میں ریکارڈ انتخابی دھاندلی کے خلاف شدید ہنگامے ہو رہے تھے اور گلی گلی مظاہرے ہو رہے تھے، فوج عوام کے مقابل آگئی تھی، ایسے میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان قومی اتحاد سے مذاکرات چھوڑ کر ملک سے باہر چلے گئے تھے، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ انہیں حالات کی کوئی پروا نہیں۔ یہی کام عمران خان نے کیا ہے تو اس پر پیپلز پارٹی کی طرف سے اعتراض کا جواز نہیں رہتا۔ تحریک لبیک کا مطالبہ تھاکہ چیف جسٹس کے استعفے اور ملعونہ آسیہ کی پھانسی تک دھرنے ختم نہیں ہوں گے لیکن وہ بھی پسپا ہوگئے ۔دوسری طرف اسلام آباد میں سڑکیں خالی کرانے کے لیے آپریشن میں تصادم کے نتیجے میں متعدد مظاہرین، کئی اہلکار اور ڈپٹی کمشنر بھی زخمی ہوگئے۔ آئی جی پنجاب کے دفتر پر مشتعل افراد نے حملہ کردیا۔ معاملہ مذہب کا ہو یا سیاست کا احتجاج کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے نہ تو عوام کو پریشانی ہو اور نہ ہی بازار بند رہیں۔ طیاروں اور ٹرینوں کی آمد و رفت بھی متاثر نہ ہو ۔ ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے ہیں احتجاج کے نام پر لوٹ مار کی گئی،گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو آگ لگائی گئی، شیشے توڑے گئے۔ یہ عام شہریوں کی املاک ہیں، ان کا کیا قصور ہے؟ ایسی حرکتیں کسی بھی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتیں۔ چیف جسٹس نے بھی اپنے فیصلے کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ توہین رسالت کا مقدمہ نہیں بنتا تو سزا کیسے دیں ۔ یہ ایک قانونی معاملہ ہے جسے قانون کی روشنی ہی میں حل کیا جاسکتا ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملعونہ آسیہ کی رہائی کا فیصلہ غلط ہے تو وہ نظرثانی کی اپیل دائر کر کے قابل وکلا کی خدمات حاصل کریں اور عوام کو مزید پریشانی سے بچائیں۔ بجائے ہر سڑک بند کرنے کے چند مقامات پر اپنا دھرنا دیا کریں۔ لیکن اس طریقے سے حکومتوں پر دباؤ نہیں پڑتا۔ بہرحال سراج الحق کا یہ کہنا تو بجا ہے کہ عدالت عظمیٰ آسیہ کی پھانسی کا عدالتی فیصلہ غلط قرار دے کر عوام میں اعتماد میں کھو بیٹھی ہے۔