بات ناموس رسالت سے چلی تھی اور اب ریاست کی ناموس پر اٹک گئی ہے۔ ناموس رسالت پر تو عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ مقدمہ ہی مشتبہ تھا۔ شک کا فائدہ ملزمہ کو ملنا چاہیے۔ 9 برس بعد آسیہ کو بری کیا گیا ہے۔ آسٹریا کی جس خاتون کو نبیؐ کی شان میں گستاخی پر آسٹریا کی عدالت نے سزا دی تھی اسے یورپی عدالت نے برقرار رکھا ہے اور فیصلہ دیا ہے کہ مسلمانوں کے نبی محمدؐ کی شان میں گستاخی کو آزادی اظہار رائے نہیں کہا جاسکتا۔ آسٹریا کی خاتون نے 9 سال اپنے نظام سے لڑ کر دیکھ لیا۔ اسے اس کی مرضی کا فیصلہ نہیں ملا جسے وہ انصاف قراد دے سکے۔ اسے بھی چاہیے کہ اپنے مقدمے میں ایسے ہی شکوک تلاش کرے کہ گواہ کتنے تھے اور جرگے میں حاضری کتنی تھی، کہاں ہوا تھا۔۔۔ کیسے آئی تھی۔۔۔ یا لائی گئی تھی۔۔۔ باقی لوگوں نے گواہی کیوں نہیں دی۔ خیر اسے تو 547 ڈالر جرمانہ اور مقدمے کے اخراجات ادا کرنے ہیں کون سی موت آرہی ہے لیکن اس نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ نعوذباللہ اس کی عزت زیادہ اہم ہے۔ اس وقت وزیراعظم، وزیر اطلاعات، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، اپوزیشن کے رہنما آصف علی زرداری، بلاول زرداری، خواجہ سعد رفیق سمیت بہت ساری اپوزیشن ایک پیج پر ہے اور سب کے پیٹ میں مروڑ ہے ریاست کی عزت کا۔ لیکن ایسا کیوں ہورہا ہے۔ ان میں سے کسی نے نبیؐ کی حرمت پر اس قدر سختی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے دھرنوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ناموس رسالت کے لیے احتجاج کرنے والوں کو دھمکی دے دی ہے۔ اگر
ایوان میں آصف زرداری، بلاول، خواجہ سعد رفیق کی تقاریر سنی جائیں تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خوشگوار ماحول سارا سال اسمبلی میں برقرار رہے تو کتنا اچھا ہو۔ لیکن یہ سارے لوگ توہین رسالت کی مجرمہ آسیہ کی رہائی کے فیصلے کی حمایت میں ایک پیج پر آئے ہیں اور ان سب نے اور میڈیا نے مل کر معاملے کو توہین رسالت سے توہین ریاست تک تبدیل کردیا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پورے ڈرامے کے ڈائریکٹروں نے جو بظاہر فیصلے سے آگاہ تھے ایسے لوگوں کو احتجاج کی قیادت دی ہے جن سے جب چاہیں جس طرح چاہیں ڈیل کرلیں۔ یہ لوگ فیض آباد کے جلسے میں بھی گالیاں دیتے رہے، یہ بعد میں بھی چیف جسٹس اور پاک فوج کے سربراہ کے خلاف قابل اعتراض باتیں کرتے رہے۔ یہ کہنا کہ قیادت دی ہے کوئی غلط بات نہیں ہے۔ اس ٹیم کو ایک رات قبل الرٹ کردیا گیا تھا اس کی قیادت نے اپنے کارکنوں کو صبح 8 بجے طلب کیا تھا۔ یہ اسمارٹ قدم اس لیے اٹھایا گیا کہ کوئی اور میدان میں نہ آجائے۔ اب مذاکرات ان ہی سے ہوں گے۔ باقی ملک گیا بھاڑ میں، جو میڈیا، جو تجزیہ نگار کہا کرتے تھے کہ دینی جماعتوں کے پاس تو چار پانچ سیٹیں ہیں ان کی کیا اہمیت، اصل تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس ووٹ ہیں۔ لیکن احتجاج کرنے والوں کو سخت ایکشن کی دھمکی دینے کے اگلے دن حکومت مذاکرات بھی کرنا چاہ رہی ہے۔ ان کے پاس تو سیٹیں بھی نہیں۔ گویا ناموس رسالتؐ کی طرح ناموس ریاست پر بھی مخلص نہیں۔ اگر ریاست کی عزت پر حرف برداشت نہیں تو مذاکرات کیسے؟؟ لیکن آنے والے چند دنوں میں کیا ہوگا اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ایک یہ کہ مذاکرات کے نتیجے میں کوئی کمیشن، کوئی جے آئی ٹی، کوئی کمیٹی بنے جو اسمبلی میں یا عدالت میں کام کرے گی اور کسی بھی وقت یہ کمیٹی، کمیشن یا جو بھی شکل بنائی جائے، حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ سنا دے۔ دوسرا امکان یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے چند رہنماؤں کا صفایا اس موقع پر کیا جائے گا، جس کا اشارہ جنرل پرویز مشرف کے سابق ترجمان موجودہ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے دیا ہے کہ پتا بھی نہیں چلے گا۔ جنرل پرویز نے بھی اکبر بگٹی کو یہی دھمکی دی تھی۔۔۔ کہ پتا بھی نہیں چلے گا کہ کہاں سے کیا چیز آکر لگی ہے۔۔۔ بات کرتے ہیں۔۔۔ آج فواد چودھری نے کہا ہے کہ پتا بھی نہیں چلے گا کہ کہاں چلے گئے۔ ہمیں تو اس کا امکان کم لگتا ہے۔ کیوں کہ اتنی ساری گالیاں دینے، ریاست کے ہر ادارے کی بے عزتی کرنے کے باوجود انہیں لاکھوں ووٹ مل رہے ہیں، انہیں اسمبلی میں پہنچایا جارہا ہے، چیف جسٹس نے بھی ان کی تقریر پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ لگتا ہے اس معاملے میں ازخود کی کسی سے اجازت لینا پڑے گی۔ اب بہرحال پورے ملک میں صف بندی ہورہی ہے اور ناموس رسالتؐ ایسا معاملہ ہے کہ جس کی وجہ سے سارے دشمن یا سیاست میں ایک دوسرے کے خلاف اپوزیشن اور مخالف کا کردار ادا کرنے والے اچانک کھل کر سامنے آگئے، سب ایک ہیں۔ داخلہ امور کے وزیر مملکت بڑے اعتماد سے کہہ رہے ہیں کہ دیکھیں اسمبلی میں بھی تمام اپوزیشن ریاست کی رٹ قائم رکھنے کے لیے ہمارے ساتھ ہے۔ عمران خان غصے میں دانت پیس رہے تھے، وزیر مملکت کی رگیں پھول رہی تھیں، یہ سب ریاست کی ناموس پر ایک ہوگئے ہیں، ریاست کی ناموس اپنی جگہ، اس کے لیے مرمٹنے کے لیے سب تیار۔ تنخواہ لے کر مراعات لے کر مرنے والے الگ اور تنخواہ اور مراعات لیے بغیر مرمٹنے والے 22 کروڑ لوگ الگ۔ لیکن جب معاملہ ناموس رسالتؐ کا آجائے تو ناموس ریاست کی کیا حیثیت۔ لیکن پاکستانی کابینہ کا سب سے زیادہ صحت مند نظر آنے والا وزیر بار بار کہہ رہا ہے کہ ریاست کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ پھر بھی طاقت کے استعمال سے گریز کریں گے۔ دوسری طرف تحریک لبیک کے رہنما خادم رضوی نے انتہا درجے کے مطالبات کیے ہیں۔ چیف جسٹس کے استعفے اور آسیہ کی پھانسی سے کم پر تیار نہیں۔ ظاہر ہے حکومت ان میں سے کوئی مطالبہ نہیں مان سکتی۔ دونوں مطالبات کا اختیار فی الحال تو چیف جسٹس کے پاس ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کس مہرے کو کس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ابھی تو فرزیں سے بھی شاطر کا ارادہ پوشیدہ ہے۔