ناقابل تلافی نقصان

444

حضرت مولانا سمیع الحق کی شہادت پوری امت اور خاص طور پر پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی شاید ہی ہوسکے۔ 81 برس کی عمر میں شہادت کا بلند مرتبہ ان کے نصیب میں تھا جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ شہیدمرتے نہیں، زندہ رہتے ہیں اور اپنے رب کے پاس سے رزق پاتے ہیں۔ شہادت کا بلند ترین درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے اللہ کی راہ میں جان قربان کی۔ دیکھا جائے تو مولانا سمیع الحق تمام عمر اللہ کی راہ میں اپنے علم و عمل سے جہاد کرتے رہے اور لاکھوں شاگردوں کو دین کی تعلیم سے بہرہ ور کرتے رہے۔ اس کے علاوہ بھی افغان جہاد میں ان کا بہت اہم کردار تھا افغانستان میں طالبان حکومت کے بانی ملا عمر بھی ان کے شاگرد تھے اور متعدد مجاہدین نے ان کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ سے فیض حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ افغان طالبان میں ان کا احترام کیا جاتا تھا اور مجاہدین میں ان کا اثر، رسوخ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ایک مضبوط رابطہ تھے اور یہ رابطہ منقطع ہونا خود پاکستان کا بڑا نقصان ہے۔ اب ان کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔ افغان طالبان ان کی بات مانتے تھے۔ سمیع الحق شہید کا موقف بھی یہی تھا کہ امریکی فوجوں کے افغانستان سے نکلنے تک وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا لیکن پاکستان کی عسکری قیادت کی یہی خواہش رہی ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے نہ جائیں۔ عجیب بات ہے کہ جب بھی امریکا طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دیتا ہے کوئی بڑا سانحہ ہو جاتا ہے اور مذاکرات کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ مولانا سمیع الحق اپنا موقف پوری ایمانی جرأت سے بیان کرتے تھے۔ جب پاکستانی طالبان نے پولیو کے انسداد کی مہم کی مخالفت کی تو آپ نے اس کے حق میں فتویٰ دیا جو ظاہر ہے کہ مخالفین کو ناگوار گزرا ہوگا۔ اس طرح انہوں نے ملعونہ آسیہ کی بریت کی کھل کر مخالفت کی اور کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے پاکستان کی 70سالہ تاریخ پر بہت بڑا دھبہ لگا دیا ہے اور پوری امت مسلمہ کے دل زخمی کردیے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ فیصلے سے جو آگ لگی ہے اس کو بجھانے کے لیے تلافی کریں اور یہ نہ ہو کہ آسیہ کو بھی پروٹوکول کے ساتھ ہوائی جہاز میں بٹھا کر ملک سے نکال دیں۔ مولانا سمیع الحق نے اپنے پیغام میں بتایا کہ دو ہفتے قبل وزیر اعظم سے ملاقات میں کہا تھا کہ آسیہ کے معاملے میں دباؤ میں نہ آئیں اور ناموس رسالت پر اسٹینڈ لیں تو اللہ آپ کی حفاظت کرے گا۔ ورنہ آپ کی حکومت مضبوط و مستحکم نہیں رہ سکے گی۔ ملعونہ آسیہ کی بریت کا فیصلہ 31اکتوبر کو آیا اور مولانا سمیع الحق نے فیصلہ آنے سے قبل عمران خان سے ملاقات کی تھی جس سے ظاہر ہے کہ عمران خان کو بھی معلوم تھا کہ فیصلہ کیا آرہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان مولانا سمیع الحق کی باتوں پر صرف ہاں ہوں کرتے رہے۔ مولانا سمیع الحق کو جس طرح قتل کیا گیا اس نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ ایک یہ کہ کیا قاتل جان پہچان کے لوگ تھے جنہوں نے مولانا کے ساتھ بیٹھ کر پانی بھی پیا۔ دونوں ملازم بیک وقت باہر کیوں چلے گئے۔ مولانا کو جس طرح چاقوؤں کے پے در پے وار کر کے شہید کیا گیا اس سے کسی عناد اور دشمنی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مولانا نے زخمی ہونے کے باوجود سوسائٹی کی ایمبولینس منگوائی اور اسپتال جاتے ہوئے بھی وہ زندہ تھے۔ پولیس نے ایمبولینس ڈرائیور کو تحویل میں لے لیا ہے کہ شاید مولانا سمیع الحق نے قاتلوں کا نام بتا دیا ہو۔ مولانا مرحوم راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن کی جس سوسائٹی میں مقیم تھے وہاں خفیہ کیمرے بھی لگے ہوئے ہوں گے ان سے قاتلوں کی نشاندہی ہوسکتی ہے۔ پولیس تحقیقات میں مصروف ہے۔ لیکن پاکستان میں لیاقت علی خان شہید سے لے کر آج تک جتنے بھی اہم ترین افراد قتل ہوئے ان کاسراغ نہیں مل سکا، کم ازکم پس پردہ سازشی کبھی سامنے نہیں لائے گئے۔ بی بی بے نظیر کا قتل بھی اس کی ایک نمایاں مثال ہے جس پر محض قیاس آرئیاں ہی ہوتی رہیں۔ افغانستان میں امن کے خواہاں اور طالبان پر اثر رکھنے والے علامہ شامزئی سمیت کئی علماء شہید کیے جاچکے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ افغان حکومت کی طرف سے بھی دھمکیاں مل رہی تھیں اور خفیہ ایجنسی خاد جو اب نیشنل ڈیفنس سروس کہلاتی ہے، وہ بھی تاک میں تھی اور ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق یہ افغان جنرل عبدالرزاق کے قتل کا بدلہ ہے۔ مولانا سمیع الحق کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو افغان حکومت کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ مولانا سمیع الحق شہید ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ ایک جید عالم دین ہونے کے علاوہ سیاست میں بھی سرگرم تھے اور دو مرتبہ سینیٹر رہے۔ انہوں نے دفاع پاکستان کونسل بھی قائم کررکھی تھی۔ مولانا سمیع الحق نے عدالتی فیصلے کے خلاف راولپنڈی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ججوں کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ اس پر بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کان کھڑے ہوگئے ہوں گے جو فواد چودھری کے مطابق حکومت کے پیچھے کھڑے ہیں۔ مولانا کے قتل میں غیر ملکی ہاتھ بھی تلاش جائے گا جس میں افغانستان کے علاوہ بھارت بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن جس طرح ان کو شہید کیا گیا اس کے پیش نظر امکان یہی ہے کہ ذاتی دشمنی کا عنصر تلاش کرلیا جائے گا۔ بہرحال ایک دبنگ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی اور سمیع الحق کو اکوڑہ خٹک میں سپرد خاک کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے، لواحقین کو صبر جمیل دے اور قوم کو نعم البدل عطا کرے۔