انسداد کرپشن کا درآمدی فارمولا

222

وزیراعظم پاکستان کے دورہ چین کے دوران بڑی کامیابیوں کی خبریں آرہی ہیں۔ 15 معاہدوں کے بعد اب مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوگیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چین کرپشن کے خاتمے کا فارمولا پاکستان کو دے گا۔ دونوں ممالک ڈالر کے بجائے اپنی کرنسیوں میں تجارت کریں گے۔ وزیراعظم نے سینٹرل پارٹی اسکول میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے مغرب کے برعکس چین کا ماڈل بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم ادارے مضبوط بنائیں گے اور بد عنوانی کا خاتمہ کریں گے۔ اعلامیے میں یہ کہا گیا ہے کہ سیاسی تعلقات مضبوط بنائے جائیں گے۔ معاشی ترقی اور روزگار کے لیے ورکنگ گروپس تشکیل دیے جائیں گے۔ یہ ساری باتیں بڑی اچھی ہیں اور ان پر سنجیدگی سے عملدرآمد سے یقیناًدونوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا۔ کرپشن تو ایسا ناسور ہے کہ کسی بھی اچھے خاصے ترقی یافتہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کردیتی ہے۔ لیکن ایسا کیا کہ کرپشن کے خاتمے کا فارمولا چین دے گا۔ یہ کوئی ایٹم بم کا فارمولا ہے۔ جسے راکٹ سائنس کہاجاتا ہے اوراس کاکوئی فارمولا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کا سیدھا سادا فارمولا یہ ہے کہ جو کرپشن کرے اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا جائے۔ اب تک پاکستانی حکومتوں نے جو کچھ کیا وہ آج بھی جاری ہے۔ اپنی غلطیوں، اپنے لوگوں کے جرائم کو چھپایا جائے یا اس کی تاویلات پیش کی جائیں اور دوسروں کی غلطی کو بھی بغاوت قرار دیا جائے تو پھر کرپشن کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ چین میں جو کرپشن ہے پاکستان ابھی اس ا تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ سی پیک کے ساتھ وہ کرپشن بھی پاکستان آئے گی جس کی مہارت چینی کرپٹ لوگوں کو ہے۔ ہر ملک کا اپنا نظام ہوتا ہے اس کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں لاکھ خرابی کے باوجود خدا رسول آخرت کا تصور ہوتا ہے۔ چین کی کرپشن اور اس کا علاج دونوں میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔ در آمد شدہ فارمولے کبھی کام نہیں آتے۔ اسی طرح مغرب کے برعکس چین کا ماڈل اور دونوں ممالک کی تجارت ایک دوسرے کی کرنسی میں کرنے کے حوالے سے بھی برسوں سے حکمرانوں کو سنجیدہ طبقہ توجہ دلاتا رہا ہے کہ اسلامی ممالک کے ساتھ ڈالر کے بجائے اپنی کرنسیوں میں تجارت کی جائے۔ لیکن حکمرانوں کو کبھی یہ پسند نہیں آیا۔ اب بھی جو چیز پسند کی گئی وہ مغرب سے بھی زیادہ قابل اعتراض ہے۔ مغرب میں تو کسی نہ کسی طرح مذہب کا ذکر ملتا ہے۔ یہاں تو سرے سے کوئی مذہب ہی نہیں ہے۔ یہ خیال بھی رہنا چاہیے کہ طاقتور کرنسی ہی تجارت میں غالب رہتی ہے۔ ہمارے حکمران تو کسی کو سی پیک کی شرائط ہی نہیں بتارہے کہ لوگ جائزہ لے سکیں گیم کیا ہے اور گیم چینجر کیا ہے۔