سب کو ریگولیٹ کیا جائے

224

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چودھری نے پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کو نظر انداز کرتے ہوئے سندھ میں غنڈہ راج کا ذکر کرتے ہوئے سندھ حکومت کے خاتمے کو ضروری قرار دیا ہے۔ ان کے خطاب پر جو انہوں نے کراچی آکر فرمایا ہے پیپلزپارٹی نے بھی رد عمل دیا ہے او وہی دیا جو ہر ایک کے ذہن میں آتا ہے کہ فواد چودھری سندھ کے بجائے وفاق کی فکر کریں۔ یہ معاملہ ایک صوبے کا نہیں ہے۔ پختونخواہو، پنجاب ہو یا بلوچستان ہر جگہ غنڈہ گردی ہورہی ہے۔ لینڈ مافیا کی سرپرستی ارکان پارلیمنٹ اور وزرا کرتے ہیں۔ حالیہ واقعہ اعظم سواتی کا ہے۔ غریبوں کو بلا وجہ تھانے میں گھسیٹا گیا، تشدد کیاگی، یہ واقعہ سندھ کا تو نہیں۔ راجن پور کی ایک طالبہ کا پیغام تو موبائل پر چل رہا ہے جس میں وڈیروں اور ان کے سرپرستوں کا نام اور علاقے کا نام بھی لیا گیا ہے۔ راجن پور بھی سندھ میں نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سندھ میں امن وامان ہے۔ یہاں تو کوئی ایم این اے یا ایم پی اے کا رشتے دار بھی ہو تو وزیروں کی طرح احکامات جاری کرتا ہے۔ سرکاری نظام اس کے ماتحت چلتا ہے۔ کسی ایس ایچ او کا رشتے دار ہو تو جگہ جگہ دھمکیاں دیتا پھرتا ہے کہ گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر لے جاؤں گا۔ ایسے ایک دو نہیں درجنوں لوگ ہیں کیونکہ سندھ حکومت نے بھی بھرتی کا وہی معیار مقرر کیا ہوا ہے جو دیگر صوبوں میں ہے۔ اس میں پی ٹی آئی، ن لیگ یا پیپلزپارٹی کی تخصیص نہیں ہے، سب ایک ہیں۔ اور غنڈہ گردی کہیں بھی ہو اس کی مذمت اور سرکوبی کرنی چاہیے۔ یہ کام حکومتوں ہی کا ہوتا ہے لیکن خرابی یہ ہے کہ پورے ملک میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا معاملہ اور رویہ غنڈوں والا ہے۔ وزیراعظم قوم سے خطاب کرے تو دھمکیاں دے، وزیر خزانہ تقریر کرے تو خوفزدہ کرے۔ وزیر اطلاعات تو سہ طرفہ حملے کرتے ہیں کسی پر کوئی بھی الزام لگاسکتے ہیں۔ معاملہ عدلیہ کا ہو تو طلبی پر معافی بھی مانگ سکتے ہیں۔ وزیر اطلاعات کو یہ بات اب معلوم ہوئی کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہزاروں جعلی اکاؤنٹس سے غلط خبریں اور جعلی نوٹیفکیشن سامنے آتے ہیں۔ اسے ریگولیٹ کرنا ہوگا۔ چودھری صاحب سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ جعلی اکاؤنٹس سے کس طرح خبریں اور جعلی نوٹیفکیشن چلائے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف اپنی پارٹی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے پر انعامات بھی وصول کیے اور عمران خان کی شاباش بھی۔ حکمران خواہ مسلم لیگ ن ہو، پی پی پی یا اب پی ٹی آئی انہیں دوسروں کے خلاف ا پنے کام درست اور ان کے اپنے خلاف وہی کام غلط لگتے ہیں۔ اب یہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی بات کررہے ہیں لیکن یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ حکمران طبقہ ایسا کوئی کام نہیں کرتا جس سے آگے چل کر اس کے لیے راستے بند ہوجائیں۔ اسی لیے کوئی حکمران اس کو قانون کی شکل نہیں دیتا۔ منشور اور اقتدار میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی نے ہر عام آدمی کو وی آئی پی قرار دیا تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وی آئی پی شخصیات وی وی آئی پی ہوگئیں۔ چالیس چالیس گاڑیوں کے پروٹوکول کی تاویلں کی جارہی ہیں۔ یہی کام پی پی پی اور ن لیگ بھی کرتی رہیں۔ فواد چودھری صاحب کو ایک ایسے وقت میں سندھ حکومت کے خاتمے کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی جب کہ ملک کو ہم آہنگی اور سکون کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی میں تو تعاون، ہم آہنگی اور ایک پیج کی بات ہورہی ہے۔ زرداری اور شہبازصاحب حکومت سے تعاون کی بات کررہے ہیں اور فواد چودھری صاحب حکومت سندھ کو گرانے کی۔ یہ تو خیر وقت بتائے گا کہ کیا ہوگا لیکن ایسی کوششوں سے ملک کا سکون برباد ہوگا۔ حکومت سوشل میڈیا کو ضرور ریگولیٹ کرے لیکن اس سے پہلے خود کو بھی ریگولیٹ کیا جائے۔ ہر رکن اسمبلی اور وزیر اپنی گردن سے اکڑ اور رویے سے غصہ نکالے۔ عوام کو دھمکیاں نہ دی جائیں۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے آسانیاں فراہم کی جائیں کسی حکمران یا کسی با اثر شخصیت کے خلاف شکایت سننے کا نظام وضع کیا جائے۔ اس کے بعد سوشل اور مرکزی میڈیا کو بھی ریگولیٹ کریں۔ مرکزی میڈیا کیا کم ہے جہاں مذہب کو بدنام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ شتر بے مہار بن کر دوڑتا ہے۔ کبھی اسے بھی روک کر دیکھیں۔ حکومت یہ کام بھی نہیں کرے گی۔ آج کل تو محض کسی وجہ سے سوشل میڈیا سے تکلیف ہے ورنہ پی ٹی آئی کا محبوب مشغلہ بھی یہی ذریعہ ابلاغ ہے۔ حکومت نے جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کی تصاویر شیئر کرنے کے لیے جو سیل قائم کیا ہے وہ عوام کے درمیان نفرت پھیلانے کا سبب بنے گا۔ کوئی اپنی دشمنی بھی نکالے گا اور اس کا نام صیغہ راز میں رہے گا۔ لیکن اگر کوئی کسی با اثر شخصیت کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے تھانے پہنچتا ہے تو اس با اثر شخصیت کو کسی ذریعے سے اطلاع ملتی ہے اور وہ خود تھانے پہنچ کر مظلوم کی ایف آئی آر کٹوادیتا ہے۔ مظلوموں کو بھی نام صیغہ راز میں رہنے کی ضمانت ملنی چاہیے۔ صرف عوام کو لڑانے والے کاموں میں نام صیغہ راز میں رکھنا کیا معنی رکھتا ہے۔