پاکستانی بینکوں کے ڈیٹا کی چوری 

279

دنیا بھر میں جرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے پاکستانی وزیراعظم جرائم کے خاتمے کا فارمولا چین سے لارہے ہیں اور کسی ملک میں بیٹھے چوروں نے پاکستانی بینکوں کا ڈیٹا چوری کرلیا۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے اطلاع دی کہ صرف ایک پاکستانی بینک کا ڈیٹا چوری ہوا ہے جبکہ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ تمام پاکستانی بینکوں کا ڈیٹا چوری ہوا ہے۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ڈیٹا چوری ہوگیا ہے، اب عوام کس پر اعتبار کریں۔ تمام مالیاتی ماہرین اور حکمرانوں کی پالیسی ہوتی ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ بچت کی جانب راغب کریں ان کو تمام ادائیگیاں بینکوں کے ذریعے کرنے کا پابند کریں۔ یہاں تک کہ اس کام میں ترغیب سے بڑھ کر دھمکیوں اور تادیبی کارروائیوں تک نوبت آچکی ہے۔ بینکوں سے رقم نکلوانے پر بھی ٹیکس ہے۔ کوئی بھی شخص جو ٹیکس فائل نہ کرتا ہو 50 ہزار سے زیادہ کی رقم نہیں نکلوا سکتا۔ حیرت ہے ترغیب کے اس دور میں اگر کوئی یکمشت پانچ لاکھ روپے جمع کرائے تو اسے کوئی فائدہ نہیں دیا جاتا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کو اسی شرح سے فائدہ دیا جائے جس شرح سے 50 ہزار روپے سے زیادہ یکمشت نکالنے پر ٹیکس کاٹا جاتا ہے۔ بہر حال یہ تو الگ مسئلہ ہے فی الوقت تو اپنے ملک کے بینکوں میں رقم جمع کرانے والے کیا کریں۔ ایک اطلاع کے مطابق معروف سائنسدان ڈاکٹر یوسف خلجی کے پنشن اکاؤنٹس سے 30 لاکھ روپے نکل گئے، کے پی کے میں 220 شہری لٹ گئے۔ بینکوں کا یہ حال ہے کہ وہ اے ٹی ایم میں رقم رکھنے میں بھی محتاط ہوگئے ہیں۔ ادھر پاکستان میں جعلی اکاؤنٹس کا معاملہ بھی اس قدر پھیل چکا ہے کہ اس کی تحقیق کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے اہلکاروں کی تعداد 30 تک پہنچ چکی ہے۔ ہر افسر کو چار چار کیسز دیے جائیں گے۔ بینکوں میں رکھی گئی رقوم کے غیر محفوظ ہوجانے اور ڈیٹا چوری ہونے پر پورے ملک کے عوام کو تشویش ہے۔ اب تک جعلی اکاؤنٹس کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے یہ پتا نہیں چل پایا کے رکشہ والے، شربت والے، درزی وغیرہ کے نام سے اکاؤنٹس کون کھلوارہا تھا اور کون استعمال کررہا تھا۔ گویا بینکوں کا عملہ بھی اس میں ملوث تھا۔ اگر اس طرح بینکوں سے رقوم نکلوانے اور غائب کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو کیا عوام گھروں میں رقم چھپانے یا زمین میں دفن کرنے کا پرانا طریقہ اختیار کریں گے۔ مزید خرابی یہ ہے کہ ذمے دار اداروں کے بیانات میں تضادات ہیں۔ مرکزی بینک کہتا ہے کہ صرف ایک بینک کے ڈیٹا تک رسائی ہوئی اور اسے گھر ے مارکیٹ میں فروخت کیا گیا جس کے بعد رقوم نکالی گئیں۔ لیکن ایف آئی اے، سائبر کرائم کے ذمے دار کا کہنا ہے کہ تمام بینکوں کا ڈیٹا چوری ہوا ہے۔ کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ عوام تو نہیں کرسکتے، ٹی وی چینلز بھی اس کا فیصلہ نہیں کرسکے جو جامعہ پنجاب کے کسی شعبے میں کسی معمولی جھگڑے کو فساد بنا کر لمحوں میں تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور دو نا محرموں کو میاں بیوی ثابت کردیتے ہیں،ان کو دین دار تنظیم اس کی ذمہ دار نظر آتی ہے۔ ہمارا نظام تو اتنا کمزور ہے کہ جس شخص کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں اس کی جائداد نیلام کرنے کا حکم دیا جاچکا ہے اس کے گھر سے 2 قیمتی گاڑیاں غائب ہوگئیں۔ ایسے ملک کا بینک ڈیٹا کوئی چوری کرلے تو اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ایک مذاق بنا ہوا ہے۔ نیشنل سیونگز میں بھی فراڈ کی خبریں عام ہیں۔ 20 کروڑ کا فراڈ ہوا اس میں بھی ادارے کا ملازم ملوث تھا۔ ایک اخبار کی خبر ہے کہ اکاؤنٹس کی ہیکنگ کے جرم میں ملوث گروہ راجن پور، منڈی بہاالدین، سرگودھا اور لاہور سے آپریٹ کرتا ہے۔ اگر حکومت کے ذمے دار ذرائع خصوصاً اسٹیٹ بینک ٹھوس شواہد کی بنیاد پر جلد قوم کی رہنمائی کرے ورنہ سوشل میڈیا جو قیامت ڈھائے گا وہ الگ تباہ کن ہوگی۔ جب بینکوں میں رکھے ہوئے عوام کے پیسے غیر محفوظ ہیں تو وزیراعظم عمران خان کے اس دعوے پر بھی شبہ ہونے لگا ہے کہ عوام ڈیم کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز دیں 15 سو ارب روپے کی حفاظت میں کروں گا۔ جب بینکوں میں محفوظ رقم غائب ہوسکتی ہے تو اس رقم کی کیا ضمانت۔ یہ بھی کسی بینک ہی میں رکھا جائے گا۔ کیا اس کے لیے بھی ڈیم کے مجوزہ مقام پر کوئی گڑھا کھود کر رقم جمع کی جائے گی۔