جذباتی تقریریں اور کشکول

375

وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جذباتی تقریروں سے کشکول نہیں ٹوٹتے اس کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ اسد عمر کا یہ تبصرہ اسمبلی میں اپوزیشن راہنماؤں کی تقریروں کے بارے میں تھا۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت سے سعودی امدادی پیکیج کی تفصیلات اور شرائط سامنے لانے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اسد عمر کی اس بات پر غالب کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے ’’کب کھلا یہ راز تجھ پر انکار سے پہلے کہ انکار کے بعد‘‘۔ ظاہر ہے اسد عمر پر کشکول ٹوٹنے کا یہ راز انکار کے بعد یعنی حکومت میں آنے کے بعد ہی کھلا ہوگا کیوں کہ حکومت میں آنے سے پہلے تو وہ اور ان کی جماعت اپوزیشن میں تھی اور اپوزیشن بھی ایسی کہ جو ہواؤں میں ہی اُڑ رہی تھی۔ ایک ایسی مثالیت پسند اپوزیشن جس کا زمینی حقائق سے نہ تو واسطہ تھا اور نہ رابطہ۔ شاید یہی وجہ کہ تحریک انصاف حکمران کلاس پر تنقید کرتے ہوئے بہت سے زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے ایسے دعوے کر رہی تھی جو اب اس کے گلے کی پھانس بن رہے ہیں۔
آزاد میڈیا اور مادر پدر آزاد سوشل میڈیا اب قدم قدم پر پی ٹی آئی کو وہ دعوے یاد دلاکر حکومت کا مزہ کرکرہ کر رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بیتے کل کی اپوزیشن کو کبھی حکومت میں آنے کا یقین ہی نہیں تھا۔ اسی لیے انہوں نے شیڈو کابینہ کا وہ تجربہ کرنے سے گریز کیا جو مغربی جمہوریت کا خاصہ ہے۔ عمران خان نے واحد شیڈو وزیر کا اعلان کر رکھا تھا اور وہ تھے اسد عمر لیکن اسد عمر کی کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود انہیں بھی یہ بات ایک لطیفہ لگی تھی اور انہوں نے بھی اپنی مستقبل کی وزارت سے متعلق معلومات لینے اور کچھ ہوم ورک کرنے کی جانب توجہ ہی نہیں دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب ذمے داری کندھوں پر آن پڑی تو ہاتھ پاؤ ں پھول گئے۔ ایسے میں اسد عمر کی یہ بات سو فی صد بجا ہے کہ کشکول جذباتی تقریروں سے نہیں ٹوٹا کرتے بلکہ اسے توڑنے کے لیے پہلا قدم عزم وارادے کی پختگی ہوتا ہے۔ باقی سب مراحل اس کے بعد آتے ہیں۔ اگر کشکول توڑنے کا عزم اور نیت ہی نہ ہو تو یہ ٹوٹتا نہیں بلکہ مضبوط اور وسیع ہوتا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہی ہوتا رہا ہے۔ کشکول توڑنے کے اعلانات تو ہوتے رہے مگر کشکول توڑنے کے پیٹ پر پتھر باندھ کر اس نیت کا ثبوت نہ دیا جا سکا جو اس بڑے اور عظیم کام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ عزم وارادے کے بعد دوسرا قدم گہری اور دوررس منصوبہ بندی کا ہوتا ہے۔ ایسی منصوبہ بندی جس میں عوام ہی قربانی کا بکرا نہ بنیں بلکہ حکمران اور بااثر اور صاحب ثروت طبقات بھی قربانی میں عام آدمی سے زیادہ حصہ دار ہوں۔
ماضی کی ہر حکومت قربانی کی ساری ذمے داری عام آدمی پر ڈال کر خود جذب�ۂ قربانی سے عاری ہوکر مزے لوٹتی رہی۔ اس رویے نے کشکول ٹوٹنے کی نوبت ہی نہیں آنے دی بلکہ کشکول کا وزن اور حجم بڑھتا چلا گیا۔ یہی کشکول اب منتقل ہوتے ہوتے اسد عمر کے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے۔ اسد عمر بھی ماضی کے بہت سے وزرائے خزانہ کی طرح کشکول توڑنے اور آئی ایم ایف کی امداد کو آخری کشکول نمائی کا دعویٰ کررہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں اس بار آئی ایم ایف کے پاس پاکستان کا یہ آخری پھیرا ہوگا۔ یہ بھی ایک بڑا دعویٰ ہے جو ابھی زمینی صورت حال سے لگا نہیں کھاتا۔ اسد عمر کہتے ہیں تو مان لینے میں کوئی حرج نہیں مگر یہ دعویٰ بھی وقت کی میزان پر تولا جائے گا۔ اس طرح کے دعوے کرنے کی موجودہ حالات میں چنداں ضرورت نہیں۔ حکومت پہلے ہی اپنے ماضی کے دعوؤں کے گھن چکر میں پھنس چکی ہے۔ آج حکومت جب اپوزیشن کو جذباتی تقریروں سے کشکول نہ ٹوٹنے کا چند ماہ کا تجربہ بیان کرتی ہے تو خود یہ بات انہیں اپوزیشن کے عہد میں یاد رکھنی چاہیے تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقید ومحاسبہ میں انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ عوام کی خواہشات اور توقعات کا گراف بھی اس حد تک بلند نہ کیا جائے کہ وہ سبز باغ سے ہوتا ہوا قوم کے لیے کالاباغ ڈیم ہو کرنہ رہ جائے جس کے نام کی مالا مدتوں سے جپی جا رہی ہے مگر تعمیر کا مرحلہ قریب آنے کا نام نہیں لے رہا۔ پی ٹی آئی کی طرح آج کی اپوزیشن کو بھی دعوؤں، اعلانات اور تنقید کے معاملے میں تحریک انصاف کا حال ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ موجودہ اپوزیشن کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک تو ان کے دعوے میزان عمل پر تولے جائیں گے وہیں ان پر ماضی کا بوجھ بھی ہے۔ محدود وقت اور ابتدائی تجربے نے پی ٹی آئی کو وہ سبق پڑھا دیا ہے جو بائیس سال کی اپوزیشن انہیں ازبر نہ کراسکی تھی۔ آج کی اپوزیشن تو بیتے کل کی حکومت ہے اسے تو یہ سبق پہلے ہی یاد ہونا چاہیے کہ تنقید برائے تنقید اور جذباتی نعروں اور تقریروں سے کوئی بڑا معرکہ سر نہیں ہو سکتا۔ عزم اور منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی صلاحیت سے مشکل سے مشکل مرحلہ بھی با آسانی گزارا جا سکتا ہے۔ پہلے مرحلے پر ہی موجودہ حکومت کی حالت دیکھ کراب کسی بھی اپوزیشن کو بلند وبانگ دعوؤں اور وعدوں سے گریز کرنا چاہیے مگر اس کا کیا کیجیے اسد عمر اب بھی آئی ایم ایف کا آخری قرض جیسی باتیں کرکے حالات سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔