پاک چین تعلقات کی بلندیاں اور گہرائیاں

273

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ چین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط اور مستحکم ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے چین کا پانچ روزہ اہم دورہ کیا ہے جہاں انہوں نے کئی اہم سیمیناروں اور کانفرنسوں سے خطاب کے علاوہ کئی عالمی راہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دوران میں پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے چودہ معاہدے بھی ہوئے۔ عمران خان نے تجارتی جنگ میں چین کا ساتھ دینے کا اعلان بھی کیا انہوں نے کہا کہ چند طاقتوں نے عالمی تجارت پر حملہ کیا ہے اور اس غاصبانہ عمل کو چین نے ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں، پاکستان اس عمل میں چین کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے لیے ڈالر کا استعمال ترک کرکے اپنی ملکی کرنسیوں کے استعمال پر بھی اتفاق ہوا۔ ایک اہم بات یہ کہ زرمبادلہ کے ذخائر کا خسارہ کم کرنے اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کی خاطر پاکستان کو فوری امداد کے طور پر چھ ارب ڈالر سعودی عرب سے ملے تھے جس کے بعد باقی چھ ارب چین سے ملنے کی توقع تھی۔ چین کے دورے کے دوران میں سعودی طرز کے پیکیج کا اعلان تو نہ ہوا البتہ وزیر خزانہ اسد عمر نے اعلان کیا کہ باقی چھ ارب ڈالر چین سے مل گئے ہیں اور یوں معیشت بحران سے نکل آئی ہے۔ اس طرح سعودی عرب کے بعد عوامی جمہوریہ چین نے مشکل وقت میں حق دوستی اور تعلق نبھانے کی رسم وریت برقرار رکھی ہے۔
عمران خان نے مختلف خطابات میں منی لانڈرنگ کو ترقی پزیر ممالک کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا اور وائٹ کالر کرائم کے خاتمے کے لیے چین سے مدد بھی طلب کی۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ دورہ پاک چین تعلقات کے سفر کا اہم ترین پڑاؤ ہے۔ چین اس وقت مغرب بالخصوص امریکا کے شدید دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ امریکا چین کے اقتصادی اُبھار کو روکنے کے لیے سیاسی، اقتصادی، سفارتی اور عسکری ہر ذریعہ استعمال کر رہا ہے۔ گزشتہ دہائیوں سے پاکستان بھی اسی زورا زوری کا شکار ہے۔ افغانستان جیسے ممالک کا پاکستان کی بدقسمتی میں گہرا دخل ہے۔ امریکا پاکستان کو ہر قیمت پر اس کشمکش میں چین کے ساتھ کھڑا ہونے سے روکنے کی کوشش کرتا رہا۔ پاکستان بہت آہستہ روی کے ساتھ چین کی جانب کھسکتا رہا کیوں کہ اس عمل کی شدید مزاحمت اور مخالفت موجود تھی۔ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے معاملے پر پوری معرکہ آرائی ہوئی۔ گوادر کی بندرگاہ کو تعمیر سے پہلے ہی ویران کرنے اور یہاں سے تعمیراتی کام کرنے والی چینی کمپنیوں اور کارکنوں کو بھگانے کے لیے خوں ریز عسکریت شروع کرائی گئی۔ اس عسکریت کو بھارت کے ذریعے سرپرستی فراہم کی گئی اور اسے افغانستان کا ’’بیس کیمپ‘‘ فراہم کیا گیا۔ پاکستان اس خوفناک دلدل سے بہت مشکل مگر کامیابی سے باہر نکل آیا۔
منی لانڈرنگ کا جو رونا عمران خان باہر رو رہے ہیں وہ بھی محض مقامی عمل اور سرگرمی نہیں بلکہ اسے بھی مافیا طرز کے بین الاقومی گروہوں کی سرپرستی حاصل ہے اور ان گروہوں کے ڈانڈے مغربی حکومتوں سے جا ملتے ہیں۔ پاکستان سے جو پیسہ باہر منتقل ہوا اس کی منزل امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور دبئی رہی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ان ممالک کی ایجنسیوں اور اداروں کو یہ اندازہ نہ ہوکہ وہاں منتقل ہونے والی رقم کن ذرائع سے حاصل کی گئی ہے۔ اپنے ملکوں میں قاعدے قانون کی پاس داری پر زور دینے والے یہ مغربی ممالک تیسری دنیا کے غریب لوگوں اور لڑکھڑاتی ریاستوں کے چوری شدہ مال کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کرکے گہرے تضاد کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اس طرح جب بین الاقوامی فورموں پر منی لانڈرنگ اور وائٹ کالر کرائم کی بات کی جاتی ہے تو یہ بالواسطہ طور پر غریبوں کے مال مسروقہ کی تجوریوں اور انگریزی محاورے ’’سیف ہیون‘‘ کا کام دینے والے مغربی ملکوں پر بھی تنقید ہوتی ہے جو اپنے قوانین کا عذر لنگ پیش کرکے اس سنگین جرم سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ الطاف حسین منی لانڈرنگ کیس اس کا کھلا ثبوت ہے۔ برطانیہ میں یہ مقدمہ اچانک ہی ’’مٹی پاؤ‘‘ پالیسی کی نذر ہوگیا تھا اس کی وجہ برطانوی حکومت کی سیاسی مجبوریاں تھیں کیوں کہ ایک مدت سے برطانیہ الطاف حسین کو ’’اسٹرٹیجک اثاثہ‘‘ سمجھ کر سنبھالے ہوئے تھی۔ یہ صرف ایک مثال ہے مغرب ایسے بہت سے اثاثوں سے بھرا پڑا ہے جو پاکستان میں ریاست کو مطلوب ہیں مگر وہ بے خوف وخطر بیرونی دنیا میں گل چھرّے اُڑا رہے ہیں۔
مقامی کرنسیوں میں تجارت سے ڈالرائزیشن کے رجحان پر ضرب لگے گی اور ڈالر کی اجارہ داری کسی حد تک کم ہو گی۔ اس سے پہلے ترکی بھی تجارت میں ڈالر کو بائے بائے کہنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ فوری طور پر تو شاید اس اعلان پر عمل درآمد آسان نہ ہو اور اس کے زیادہ ہمہ گیر اثرات ظاہر نہ ہوں مگر ایک سوچ پھوٹ رہی ہے جو رفتہ رفتہ اپنا دائرہ وسیع کرتی جائے گی۔ یہ مغرب کے مقابلے میں ایک نیا جہان آباد کرنے کی تیاری ہے۔ پاکستان اس نئے منظر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان داخلی استحکام اور مضبوط معیشت کا حامل ملک ہو۔ موجودہ حکومت اس سمت میں تیزی سے سفر کر رہی ہے اور عمران خان کا حالیہ دورہ چین اس سفر کو مزید تیز کرنے کا باعث بنے گا۔