عمران خان مقدر کے سکندر ہیں جو چاہتے ہیں ان کی جھولی میں آن گرتا ہے۔ کرکٹ کی سرداری چاہی، پکے ہوئے پھل کی طرح جھولی میں آن گری، کینسر کے مریضوں کا مسیحا بننا چاہا، بن گئے۔ وزارت عظمیٰ کی مسند کے طلب گار ہوئے، عظمیٰ خانم کی طرح ان کے گلے سے آن لگی، پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے مگر اس مقام پر پہنچے تو قسمت کی دیوی کسی سراپا ناز کی طرح دھول دھپّا کرنے لگی، حکومتی ارکان کا کہنا ہے:
دھول دھپّا اس سراپا ناز کا شیوہ نہ تھا
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
ملک پہلے ہی ضرورت سے زیادہ مقروض تھا، اتنا مقروض کہ سود ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے، ان حالات میں وزارت عظمیٰ گلے کا ڈھول بن گئی سو، اسے بجانا مجبوری بن گئی مگر ڈھول اتنے برے انداز میں بجایا بلکہ پیٹا گیا کہ سننے والوں کی سماعتیں لہو اُگلنے لگیں اور انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے ہی میں عافیت جانی۔ عام مشاہدہ ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت شادی بیاہ کے موقع پر قرض لے کر ہی اس فریضے کو سرانجام دیتی ہے مگر جس کے پاس قرض اتارنے کی سیڑھی نہیں ہوتی، کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہوتا تو اسے قرض نہیں دیا جاتا، مالی امداد کی جاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم نے یک آواز ہو کر چلانا شروع کردیا کہ خزانہ خالی ہے۔ ہمارے پاس تو تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں، عوام کو مراعات اور سہولتیں کیسے فراہم کریں، عوام صبر سے کام لیں کہ صبر کا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کے بیانیے کا یہ اثر ہوا کہ جس ملک سے بھی قرض مانگا جاتا ہے وہ تھوڑی بہت امداد پر رضا مند ہوجاتا ہے مگر قرض کے نام پر ایک پیسا بھی دینے کا روادار نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف کا قیام ہی ضرورت مند ممالک کو قرض دینے کے لیے ہوا تھا، دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بہت سے ممالک معاشی طور پر بہت بدحال ہوگئے تھے اور آئی ایم ایف کا مقصد ایسے تباہ حال ممالک کی معیشت کو بدحالی سے نکالنا تھا، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے خود کو اتنا کنگال اور بدحال ظاہر کیا کہ قرض دینے والے یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ادائیگی کیسے ہوگی سو، آئی ایم ایف نے ایسی کڑی شرائط پیش کیں جنہیں سن کر حکومت کے ’’کڑاکے‘‘ نکل گئے، حکومت لاکھ کوشش کرے مگر کڑاکے تو نکلوانے ہی پڑیں گے، یہاں یہ مشکل بھی آن پڑی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرلی گئیں تو عوام کے سر، تسلیم خم نہ ہوں گے اور وطن عزیز کو مدینے کی ریاست بنانے کے دعوے داروں کو جنت کی ریاست کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر آدم اپنی حوا کی تلاش میں بھٹکنے لگے گا۔
ان حالات میں ہمیں ایک لوک کہانی یاد آرہی ہے، یہ کہانی سبق آموز اور ڈونکی کنگ کی طرح علامتی ہے۔ بچے ایسی کہانیاں بہت پسند کرتے ہیں جن کے کردار آدمی کے بجائے جانور ہوں سو، حکومتی کارندے اپنی پیشانیوں کو شکن آلود نہ کریں کہ ان کا یہ عمل آلودگی کا سبب بھی بن سکتا ہے، بلکہ اپنے دامن کو غور سے دیکھیں کہ اس میں کتنے چھید ہیں۔ ہم نے اتنا ہی لکھا تھا کہ خبر ملی کہ وزیراعظم عمران خان سعودی عرب سے ڈھیروں ڈالر لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ بات تو خوشی کی ہے کیوں کہ آئی ایم ایف اپنی شرائط نرم کردے گا مگر حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کن شرائط پر ڈالر نچھاور کرنے پر آمادہ ہوا ہے، اگر یہ کفالت ہے تو یقیناًباعث پریشانی ہوگی کیوں کہ اہل وطن عربی کفیلوں کو اچھی طرح جانتے ہیں، حکومتی ارکان اور منظور نظر ٹی وی اینکرز کا کہنا ہے۔۔۔ آم کھاؤ، پڑ مت گنو۔
یاد آیا ہم قارئین کو ایک لوک کہانی کے بارے میں بتارہے تھے، کہانی یوں ہے کہ گیدڑوں نے سوچا کہ ہر قوم کا سردار ہوتا ہے، ہمیں بھی سردار کا انتخاب کرنا چاہے۔ سوچ بچار کے بعد ایک خوش نظر گیدڑ کا انتخاب کرلیا گیا۔ سردار منتخب کرنے کے بعد یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ سردار کی ایسی شناخت ہونا چاہیے جو دوسروں سے منفرد ہو۔ مشاورت کے بعد طے پایا کہ سردار کی دم سے چھاج باندھ دیا جائے تا کہ وہ ہم میں منفرد دکھائی دے، جب بھی دریخانہ سے اس کی سواری نکلے سب کو معلوم ہوجائے کہ سردار آرہا ہے۔ کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر چھاج لایا گیا اور سردار کی دم سے باندھ دیا گیا۔ ایک بار سردار کے جی میں آیا کہ جنگل سے نکل کر قریبی گاؤں کی سیر کی جائے کچھ درباریوں کو لے کر سردار گاؤں کی سمت چلا مگر یہ کیا؟ وہاں تو سگانی دیہہ استقبال کے لیے صف بہ صف کھڑے تھے اس غیر متوقع صورت حال سے ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور اس اکھاڑ پچھاڑ میں جنگل کا رُخ کرنے ہی میں عافیت گردانی۔ درباری تو دریخانہ میں داخل ہوگئے مگر سردر اپنے دربے تک نہ پہنچ سکا۔ موالی چلاتے سردار آگے بڑھیے اور اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوجائیے۔ سردار نے کہا۔ میں تو آنا چاہتا ہوں مگر سرداری آڑے آرہی ہے خوش بختی بدبختی بن گئی ہے۔ خدشہ ہے عمران خان کی خوش بختی بھی بدبختی نہ بن جائے، گیدڑ سردار تو ایک چھاج کی وجہ سے بدبخت بنا تھا مگر عمران خان سے تو بہت سے چھلنیاں چمٹی ہوئی ہیں۔