شک تو پیدا ہوگیا

406

 

 

ایک عجیب مخمصہ ہے کہ شک کا فائدہ کس کس کو کب کب ملنا چاہیے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچ میں رن آؤٹ کے دو مواقع پر شک کا فائدہ بیٹسمین کو نہیں ملا۔ دونوں آؤٹ قرار دیے گئے۔ کسی دل جلے نے کہا کہ اس کا نام آسیہ مسیح نہیں تھا۔ اس لیے شک کا فائدہ نہیں ملا۔ یوں ہی ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک میاں صاحب تھے۔ ہر ایک کی غلطی پکڑتے تھے، ہر ایک کو سزا دینے پر تلے رہتے تھے، میاں صاحب تو ہوتے ہی طاقتور اور مقتدر ہیں۔ وہ بھی ایسے ہی تھے لیکن ان کی بدنصیبی ایک موقع پر شک کا فائدہ انہیں نہیں مل سکا بلکہ معاملہ الٹا ہوگیا۔ ان کے دوستوں نے گھیراؤ کیا اور ایک نے سوال کیا کہ میاں صاحب شادی ہوگئی کہنے لگے۔۔۔ لو اب پوچھ رہے ہو چار بچے ہیں بھائی۔ دوسرے نے کہا نہیں کچھ شک سا ہورہا ہے۔ بتاؤ کتنے لوگ آئے تھے، میاں صاحب نے کہا کہ کوئی چھ سو کے لگ بھگ تھے۔ تیسرے نے فوراً کہا کہ نہیں بھائی میں تو وہاں موجود تھا چارسو تھے۔ پہلے سے تیار چوتھا بول پڑا، نہیں یار تین سو ہی تھے۔ پہلے نے پھر کہا کہ میاں صاحب آپ کی شادی مشکوک ہوگئی۔ چار گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے۔ کوئی کہتا ہے چار سو آپ کہتے ہیں چھ سو ایک کہتا ہے صرف تین سو۔ بھئی معاملہ مشکوک ہوگیا ہے۔ اس پر میاں صاحب غصے میں آگئے اگلے دن اسپتال میں داخل ہوگئے اور دل کا آپریشن کرالیا۔ دوست سہم گئے اور خاموشی میں عافیت جانی۔ ایک ضروری وضاحت جس میں سب کی عافیت ہے اسے لطیفہ ہی سمجھا جائے اور ملک کے موجودہ حالات سے تقابل کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا کرنے پر ذمے دار آپ خود ہوں گے۔
اچھا جی جب حالات کا ذکر آیا تو وفاقی وزیر اطلاعات سامنے آگئے کیوں کہ وہ حکومت کے فرنٹ مین ہیں۔ کم از کم فرنٹ تو ہیں۔ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ یہ ہمارا آدمی تھا اب فرنٹ ہوگیا ہے۔ لیکن جو باتیں وہ خود کہہ رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ فواد چودھری صاحب اپنا تعلق بیان کرنا چاہ رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ آلو کی فصل پکنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ کبھی سب کو خلا میں بھیجنے کی بات کرتے ہیں، یہ دونوں تعارف خطرناک ہیں۔ آلو کا تعلق محکمہ زراعت سے براہ راست ہے، یہ وہ ترکاری ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر سبزی اور گوشت کے ساتھ پک جاتی ہے۔ یعنی مارشل لا ہو یا جمہوریت ہر جگہ فٹ۔ خیر آلو اور محکمہ زراعت کا تعلق تو گہرا تھا۔ اگلا مشورہ جو وہ کراچی سے اسمبلی تک دیتے گئے، وہ تھا مخالفوں کو خلا میں پہنچانے کا۔ کہا تو سپارکو سے تھا کہ وہ سب کو ایک خلائی جہاز میں بٹھائے اور خلا میں چھوڑ آئے۔ واپسی کا راستہ بند کردے۔ یہ مطالبہ کوئی خلائی مخلوق ہی کرسکتی ہے۔ اس طرح فواد چودھری صاحب نے یہ بتادیا کہ ان کا تعلق کس سے ہے۔ اگر ان سیاستدانوں کو خلا میں چھوڑ دیا جائے جن کی نشاندہی یا جن کے بارے میں فواد چودھری نے اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فسادیوں اور کچھ سیاستدانوں کو خلا میں بھجوادیں یہی ان کا علاج ہے۔ علاج تو انہوں نے درست تجویز کیا ہے لیکن حزب اختلاف انہی کو فساد چودھری کہنے لگی ہے۔ فسادیوں کے بارے میں تو قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ انہیں ملک سے نکال دو لیکن جو بات وہ کہہ رہے ہیں اس الزام یا اس زمرے میں تو وہ، ان کی پارٹی آج کل کے صدر مملکت اور وزیراعظم سب ہی آتے ہیں۔ کس نے کب فساد نہیں کیا۔ وزیراعظم نے دھرنے کے دوران پورا ملک بند کرانے کا اعلان کیا، صدر مملکت تو ہندی فلم کے ولن کی طرح ڈائیلاگ بول رہے تھے۔ آج کوئی گاڑی نہیں چلے گی، ورکرز کہاں ہیں، بند کرو سارا ٹریفک، چودھری صاحب تو کیا سب خلا میں جائیں گے۔ لیکن یہاں بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ جو اس طرف ہیں ان کو شک کا فائدہ مل جائے گا۔
یہ شک کا فائدہ بھی عجیب ہے۔ 31 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ نے جب آسیہ مسیح کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا اس وقت جو نام لکھا گیا وہ عاصیہ بی بی تھا۔ پھر تحریک لبیک سے جو معاہدہ ہوا اس میں بھی عاصیہ بی بی لکھا گیا۔ سارا مقدمہ 9 برس سے آسیہ بی بی کا چل رہا ہے۔ ٹرائل کورٹ و ہائی کورٹ میں آسیہ بی بی کے خلاف فیصلہ ہوا۔ عدالت عظمیٰ نے عاصیہ بی بی کو بری کیا ہے معاملہ تو عدالت عظمیٰ نے مشکوک کردیا۔ آسیہ کو بیرون ملک نہیں جانے دیں گے یا عاصیہ کو۔ معاہدے کے مطابق عاصیہ کو نہیں جانے دیں گے۔ اگر آسیہ چلی گئی تو کیا ہوا۔ اس کا تعلق تو معاہدے اور فیصلے سے نہیں ہے۔ اس چکر میں بی بی سی نے شوشا چھوڑ دیا کہ آسیہ ہالینڈ چلی گئی۔ ایک ہفتے پہلے سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر کے نام سے کسی بخاری صاحب نے ٹویٹ کیا کہ سی این این پر شان تاثیر نے اطلاع دی ہے کہ آسیہ کینیڈا پہنچ گئی ہے۔ یہ سب شکوک اس لیے پھیلائے جاتے ہیں کہ جب اصلی خبر آئے تو لوگ زیادہ ردعمل نہ دیں۔ بہرحال شک تو پیدا ہوگیا ہے۔ اب تو ہر بات پر شک ہے۔ عوام کو اپنے ہونے پر شک ہونے لگا ہے۔ ’’ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں‘‘۔ اور اگر ہیں بھی نہیں رہیں گے کہ غربت کے بجائے غریب مٹائے جارہے ہیں۔