خوشیو کا قافلہ کہاں ہے؟

296

 

 

عزت ماآب عادل اعظم میاں ثاقب نثار کا فرمان ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل بہت فعال ہوچکی ہے، احتساب کا عمل بھی مضبوط اور توانا ہوچکا ہے، اب ججوں کا بھی احتساب ہوگا۔ واقعی!۔ عدالتوں میں آنے والے فریادی اب عدالت سے مر کر نہیں نکلیں گے، انصاف لے کر جائیں گے، ناانصافی اور انصاف میں تاخیر کرنے والے ججوں کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ہوگی اور اب ججوں کو چھٹی والے دن کی تنخواہ نہیں دی جائے گی، ججز گاڑی مانگتے ہیں، بنگلا مانگتے ہیں اور دیگر سہولتیں و مراعات کے طلب گار بھی ہوتے ہیں مگر مقدمات پر توجہ دینے کے روادار نہیں، اس صورتِ حال میں ضروری ہوگیا ہے کہ ہائی کورٹس کی نگران کمیٹیوں کے ججوں کو چیمبر میں بلا کر کارکردگی کے بارے میں جواب طلبی کی جائے۔چیف صاحب کا یہ فرمان باعث حیرت ہے کہ ججوں کو چھٹی والے دن کی تنخواہ نہیں ملے گی گویا کچھ ججز ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں جو لوگ دہاڑی دار ہوتے ہیں وہ کوئی بھی کام دل جمعی اور ذمے داری سے نہیں کرتے سو، ایسے ججوں کو آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کا خوف کیوں ہوگا؟۔
عادل اعظم کا یہ فرمان قوم کے لیے باعث مسرت ہوگا کہ عدالتوں کو مطلوب لوگوں کو قبروں سے نکال کر ٹرائل کیا جائے گا مگر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ جو عدالتیں زندہ سلامت مجرموں کا ٹرائل نہیں کرتیں وہ قبریں کھودنے کی مشقت کیوں اُٹھائیں گی۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اس مشقت سے کیا حاصل ہوگا؟ عدالتیں تو عزیر بلوچ کو لے پالک بنائی ہوتی ہیں۔ یہ اطلاع خوش آئند ہے کہ منشا بم پکڑا گیا ہے مگر اس کی گرفتاری پولیس کا کارنامہ نہیں منشا کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے، وہ ضمانت کے لیے عدالت میں پیش ہوا تھا، حالات بتارہے ہیں کہ وہ اپنی غلطی پر خوشی منا رہا ہوگا کیوں کہ عزیر بلوچ کی طرح عدلیہ اسے بھی بھول جائے گی، جیل میں گھر جیسی سہولتیں میسر ہوں گی۔ چیف صاحب! ہائی کورٹس کی نگران کمیٹیوں سے کارکردگی کے بارے میں استفسار کے خواہش مند ہیں ہم انہیں بہاولپور ہائی کورٹ میں دائر ایک اپیل کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں۔ ایک مدعا علیہ جو 2000ء سے اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر اور شیطانی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہے اس نے جلد سماعت کے لیے درخواست دی اس کا کہنا تھا کہ محکمہ مال، رجسٹری آفس، سول کورٹ اور سیشن کورٹ اس کے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں، بعض مدعی کے پاس استقرار حق کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ محکمہ مال اور رجسٹری آفس کی تصدیق کے بعد مدعی یا مدعاعلیہ کو ذہنی اور مالی پریشانیوں میں کیوں مبتلا کیا جاتا ہے؟ مدعا علیہ نے فریاد کی تھی کہ اپیل در اپیل کے اذیت ناک اور جاں گسل عمل کی وجہ سے وہ بلڈ پریشر، شوگر اور نسیاں کا مریض بن چکا ہے۔ براہ کرم جلد سماعت فرمائی جائے تا کہ زندگی کے بقیہ ایام سکون کے ساتھ اپنے گھر میں گزار سکوں۔ دربدر کی ٹھوکریں کھا کھا کر وہ ادموا ہوچکا ہے۔ کسی بھی لمحے اللہ کو پیارا ہوسکتا ہے، جہاں روز قیامت ہی اس کی فریاد سنی جائے گی سو، انصاف پروری اور عدل گستری کا تقاضا ہے کہ اسے اس دنیا ہی میں انصاف عطا کردیا جائے۔ اس کی درخواست کو قرض خواہ کا تقاضا سمجھ کر جھٹلا دیا گیا اور دو ماہ کی پیشی ڈال دی گئی۔ اگست میں لیفٹ اوور ہونے والے مقدمے کو دسمبر کی پیشی دے دی گئی، توجہ طلب امر یہ ہے کہ جج صاحبان اور جسٹس صاحبان پیشی پیشی کھیلیں گے تو انصاف کون فراہم کرے گا؟ ہمیں یقین ہے کہ بہاولپور ہائی کورٹ کی نگران کمیٹی بھی اس معاملے میں کچھ نہیں کرے گی۔ وطن عزیز میں کمیٹیاں اسی لیے تشکیل دی جاتی ہیں کہ قومی معاملات اور تنازعات پر مٹی ڈال کر معاملہ رفع دفع کردیا جائے اور کمیٹی کی تجویز دینے والے کی واہ! واہ ہوجائے سو، اتنا ہی کہنا بہت ہے۔
مرا زخم میرے بدن سے آگے کی بات ہے
میرے چارہ گر تجھے یہ نظر نہیں آئے گا
وزیراعظم عمران خان سے پوچھنے کی گستاخی بھی کی جاسکتی ہے۔
تم جس کی نوید دے رہے تھے
خوشبو کا وہ قافلہ کہاں ہے؟