نیرنگیاں۔۔۔

312

 

 

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی بہت ساری خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ نواز شریف کی حکومت میں ان کے پاس وزیر مملکت برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کا قلمدان تھا۔ اس وزارت کے دوران اپنے دامن کو بُرائیوں سے بچائے رکھا۔ گو کہ مقتدرہ کے زیر اثر ہیں۔ جس سے شاید ہی کوئی بچا ہو، ہر ایک کسی نہ کسی لحاظ کے تحت زیر اثر ہی رہا ہے۔ سیاست و قیادت میں رائے، سوچ اور فیصلوں میں خود اختیاری لازم ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو قیادت آپ سے آپ ڈھیر ہوجائے گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ جام کمال پھونک پھونک کر قدم اُٹھا رہے ہیں۔ احتیاط بہرحال لازم ہے، مگر ضروری ہے کہ ترجیحات و اہداف کی سمت قدم تیز گام اٹھائے جائیں۔ وقت کا ضیاع نہ ہونے دیا جائے۔ وگرنہ پھر قلیل وقت میں اس کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔ نظیر ڈاکٹر عبدالمالک اور نواب ثناء اللہ زہری کی حکومتوں کی موجود ہے۔ جن پر عدم اعتماد کا وار ہوا تو ان سے جائز احتجاج تک نہ ہوسکا۔ عوام مطمئن نہ تھے، ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ مخلوط حکومت کارکردگی نہ دکھا سکی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے منتخب حکومت گرائی گئی۔ عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی گئی، جس کے بعد بلوچستان حکومت بچوں کا کھیل بن گئی۔ جسے تین چار بندے چلانے لگے۔ گویا جو حکومت نعم البدل بنی، اس سے بڑھ کر بلوچستان کی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے!۔ سینیٹ انتخابات اور نگران وزیراعلیٰ کا تماشا الگ داستان ہے۔ ترتیب و معیار کا خیال پچھلی حکومت نے بھی نہ رکھا۔ عبدالقدوس بزنجو اور ان کے شریک اقتدار دوست دو ہاتھ آگے بڑھ گئے۔ حکومتی مشینری میں کئی معاونین داخل کردیے۔ کوئی مشیر، کوئی وزیراعلیٰ کا پولیٹیکل سیکرٹری، کوئی اسپیشل اسسٹنٹ توکوئی کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ غالباً یہ تعداد سترہ اٹھارہ نفوس پر مشتمل تھی، جن پر حکومتی مراعات کے دروازے وا کردیے گئے۔ سو اب پھر معاونین خصوصی لینے کی باتیں ہو رہی ہیں، بلکہ اس ضمن میں بلوچستان اسمبلی کے 29اکتوبر کے اجلاس میں ایوان میں مسودہ قانون تک پیش کیا گیا۔ حزب اختلاف نے اس پر احتجاج کیا۔ جام کمال کو معاونین خصوصی کی تعیناتی کی اسمبلی سے منظوری اور قانون کا حصہ بنانے کی ضرورت اس لیے پڑی ہے کہ اُنہیں دراصل اپنی جماعت اور اتحادیوں کے دباؤ کا سامنا ہے۔ خود ان کی جماعت کے ایسے کئی لوگ ہیں جو حکومت میں حصہ چاہ رہے ہیں۔ جام کمال کو چار و ناچا ر ان کے لیے کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ وگرنہ ان کی جماعت کے اندر بعض لوگ ان کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر ایک لمحہ بھی دیکھنا نہیں چاہتے۔ انہی لوگوں نے ہی عدم اعتماد اور فارورڈ بلاک کی باتوں کی تشہیر کرادی۔
جو چند لوگوں نے بی اے پی (باپ) تنظیم سازی کا نام نہاد سلسلہ شروع کر رکھا ہے، میں بھی جام مخالف عناد جھلکتی ہے۔ مقصد جام سے اپنی باتوں کو منوانا ہے۔ جام کمال ان کے سامنے بچھ گئے، توکوئی ڈھنگ کا کام نہ کر سکے گا۔ جام کو چاہیے کہ ان چہروں اور ارادوں کو بے نقاب کرنے میں مصلحت کا شکار نہ ہوں۔ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں کہ جس سے حزب اختلاف کے اندر ان کے خلاف رائے میں شدت آئے۔ حزب اختلاف نے ایک بار عدم اعتماد کی تحریک کا عندیہ دیا ہے مابعد کہا کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم میرا اب بھی یقین ہے کہ جام کمال کو حزب اختلاف کے بجائے اپنے لوگوں کی تخریب کا سامنا ہے۔ ویسے حزب اختلاف کو ایسی نیت ظاہر کرنے سے پہلے تھوڑی سی حیا کرنی چاہیے، کہ یہی بی این پی و جے یوآئی ف تھی کہ جس نے ن لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی حکومت گرانے میں باپ کے ’’کل پرزوں‘‘ کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔ پھر وفاداریوں کی تبدیلی کا سلسلہ چل پڑا، اور بلوچستان عوامی پارٹی بنائی گئی۔
نواب اسلم رئیسانی نے 29اکتوبر کو اسمبلی میں اپنے پہلے انتخاب ہی میں عام انتخابات میں دھاندلی پر بات کی۔ ان کے الفاظ یہ تھے کہ ’’ کس طرح برگیڈئر صاحب نے انتخاب لڑوایا اور کتنی دھاندلی کئی گئی‘‘۔ یہ بھی کہا کہ ’’اغواء برائے ووٹ کے واقعات بھی ہوئے‘‘۔ نواب رئیسانی کو چاہیے تھا کہ وہ بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی کو بھی مخاطب کرتے۔ عام انتخابات سے قبل ہی یہ ساری جماعتیں ایک صف اور اُس مکروہ کھیل کا حصہ بن گئی تھیں۔ نیرنگی یہ کہ پھر ان سب جماعتوں نے نئی بننے والی جماعت باپ پر اسٹیبلشمنٹ کے طعنے کسنا شروع کردیے!۔ کہنا یہ چا ہ رہا ہوں کہ دراصل یہ جماعتیں، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کو بڑی برائی سمجھ کر باپ والوں کی قیادت میں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ لہٰذا بدیہی طور پر یہ جماعتیں بھی مخفی در و بست میں شریک تھیں، اور اپنا اپنا مقصد پالیا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر بتایا جائے کہ یہ سب کچھ کس کی نیابت میں کیا گیا؟۔
نواب رئیسانی یقینی طور پر بھائی کی موت کے صدمے سے دوچار ہیں۔ ان کے لیے مسائل بنائے گئے ہیں۔ خاندان کے اندر دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ لشکری رئیسانی کہہ چکے ہیں کہ بھائی کے تعزیت کے دوسرے ہی دن اُن کی ’’نیب‘‘ میں طلبی ہوئی۔ بہر کیف دھونس دھمکی کا الزام حالیہ ضمنی انتخاب میں سردار اختر پر بھی لگا۔ سردار اختر مینگل کے گھر پر حملے کی کوشش کا دعویٰ بی این پی کی جانب سے نہیں ہونا چاہیے تھا، سیاسی مخالفت کو بلاوجہ دہشت گردی کا رنگ د یا گیا۔ کیوں کہ آنے والے حقائق بی این پی کے الزامات کے برعکس واقع ہوئے ہیں۔ 30اکتوبر کے اخبارات میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سینیٹر حاصل بزنجو کے خلاف نیب کی جانب سے انکوائری کے آغاز کی خبر چھپی۔ جس کی نیشنل پارٹی نے مدافعت کی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ صوبے کے حالات مثبت سیاسی رجحان کے متقاضی ہیں۔ سیاسی جماعتیں مخالفت کی راہ پر ہوں گی تو اس کا فائدہ لا محالہ فیڈریشن مخالف عناصر اٹھائیں گے۔