ذاکر صاحب

324

 

 

ذاکر صاحب کی سوچ کا مرکز ومحور مچھلی ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے مچھلی کھانے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے۔ ان کی موجودگی میں دنیا کے ہر موضوع پر بات کی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ خور ونوش سے متعلق ہو اور اس خور ونوش کا مرکزی آئٹم مچھلی ہو۔ ان کے خیال میں دریا سمندر وغیرہ اللہ نے اس لیے تخلیق کیے ہیں کہ ان میں مچھلیاں رہ سکیں۔ مچھلی کی پسندیدگی کی ایک وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’مچھلی کے منہ میں زبان نہیں ہوتی‘‘ ہم نے ذکر کیا ’’ذاکر صاحب سردیوں کی آمد آمد ہے۔ سردی بھی کیا رومانٹک موسم ہے۔ جسم وجان کی رت بدل جاتی ہے۔ چاہتیں دنوں اور راتوں کا احاطہ کرلیتی ہیں۔ کسی کو آواز دینے، ’’ملنے چلے آؤ‘‘ کہنے کو دل مچلتا ہے۔ ذاکر صاحب کبھی آپ نے جاڑے کی چاندنی کا تجربہ کیا ہے؟ بولے ’’جاڑے میں نزلے زکام سے بچنے کے لیے اپنی خوراک میں مچھلی کا استعمال کیا کیجیے۔ یہ جو آپ تیزی سے بوڑھے ہوتے جارہے ہیں، بے وقوفی کی باتیں بھی جسے آپ شاعری کہتے ہیں زیادہ کرنے لگے ہیں، اس کا علاج مچھلی ہے۔ مچھلی عقل میں اضافہ کرتی ہے۔ عقل بادام کھانے سے نہیں مچھلی کھانے سے آتی ہے۔ ہم نے جواب دیا ’’عقل ٹھوکریں کھانے سے آتی ہے۔‘‘ بولے ’’ٹھیک ہے۔ ٹھوکروں کے ساتھ مچھلی بھی کھاتے رہیے۔ دانائی اور توانائی کی کمی پوری ہوتی رہے گی‘‘ ہم نے عرض کی ’’آج کل مچھلی کی قیمت پتا ہے آپ کو؟‘‘ بولے
وہ ایک مچھلی جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار مرضوں سے دیتی ہے آدمی کو نجات
ایک دن ہم افسانہ لکھ رہے تھے۔ ’’آنکھیں دنیا دیکھتی ہیں لیکن کچھ آنکھوں کو دنیا دیکھتی ہے۔ اس کی آنکھ سے جھلکتی روشنی، جھانکتا تاثر۔۔۔‘‘ یہیں تک لکھا تھا ذاکر صاحب آگئے پوچھا ’’کیا لکھ رہے ہو؟‘‘ ہم نے لیپ ٹاپ ان کی طرف کھسکا دیا۔ پڑھ کر بولے ’’مچھلی کا بھی آنکھوں سے پتا چلتا ہے۔ اگر مچھلی کی آنکھوں میں چمک ہو تو مچھلی تازہ ہے۔ مچھلی کو انگوٹھے سے دبائیں جسم پر گڑھا پڑ جائے تو باسی ہے۔ اس کے پروں کو کھینچ کر دیکھیں اگر آسانی سے الگ ہوجائیں تو بھی مچھلی فریش نہیں ہے۔‘‘ نہ جانے کیوں ان کی پُر مغز باتیں صرف مچھلی کے باب میں ہوتی ہیں۔ باقی باتیں وہ عقل سے ورے ورے کرتے ہیں۔
ذاکر صاحب دوسروں کی رائے پر خود کو فوقیت دینے کے عادی ہیں جس کا اظہار وہ مخاطب کی بات کاٹ کر کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں بات مکمل کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن یہ سب کچھ بہت مزے دار اور پر مزاح ہوتا ہے۔ ان کا بات کاٹنا کسی کو گراں نہیں گزرتا بلکہ محفل پُر لطف ہوجاتی ہے۔ وہ ایک دینی ادارے میں پڑ ھاتے ہیں جہاں ہر ایک ان کا دلدادہ ہے۔ ذاکر صاحب کی باتوں میں ڈینگوں اور ڈینگوں میں لطیفوں کا مزہ آتا ہے۔ کوئی غور نہیں کرتا کہ وہ سچ بول رہے ہیں کہ جھوٹ۔ ایک دفعہ پھلجڑی چھوڑی۔ ان ہی کی زبانی سنیے ’’ہم کو کوئی چھوٹا موٹا ٹیچر نہیں سمجھیے گا۔ اے سالا، ایک وقت میں پانچ پانچ ہزار بچوں کو پی ٹی کرایا ہے۔‘‘ ایک ساتھی پوچھ بیٹھے ’’ذاکر صاحب اسکول کتنا بڑا تھا۔‘‘ بولے ’’کیا بوکا والا بات پوچھتا ہے۔ اسکول کتنا بڑا تھا؟ سالا کم سے کم ایک سو بیس گز تو ہوگا‘‘ ساتھیوں کے قہقہے بلند ہوئے تو ذرا نروس ہوگئے بولے ’’اسکول کی پانچ برانچیں تھیں‘‘ اس پر بھی قہقہے نہ رکے تو مسکراتے ہوئے بولے ’’تم سالا کیسا مولوی لوگ ہے اتنی سی بات نہیں سمجھتا وہ ایک اللہ والے کا اسکول تھا۔‘‘ ایک مرتبہ اسٹاف روم میں لطیفوں کی محفل گرم تھی۔ کسی نے ذاکر صاحب سے فرمائش کردی۔ ان کی پونجی میں ایک ہی لطیفہ ہے جو وہ دسیوں مرتبہ اس طرح سنا چکے ہیں جیسے پہلی مرتبہ سنارہے ہیں۔ ایک بیل گاڑی جنگل سے گزر رہی تھیں۔ شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی۔۔بیل کو ہنکا، سب لوگوں ادھر اُدھر بھاگ گئے۔ ایک آدمی بیل گاڑی کے نیچے چھپ گیا۔ شیر کو شکار نہیں ملا تو وہ بھی اسی بیل گاڑی کے اوپر آکے بیٹھ گیا۔ تختوں کے درمیان شیر کے جسم کا ایک حصہ نیچے لٹک رہا تھا۔ آدمی نے خنجر نکال وہ حصہ کاٹ ڈالا۔ ’’شیر بھاگا۔ ارے باپ رے ان لوگوں نے مجھے بے دُم کردیا‘‘۔ اس لطیفے پر سب سے بلند قہقہہ خود ذاکر صاحب کا تھا۔
ذاکر صاحب بہاری ہیں۔ چھ فٹ کے لحیم شحیم۔ اہل بہار میں ان سا پہلوانی ڈیل ڈول ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ ساڑھے تین ہزار برس پہلے اسرائیلیوں نے سینا کی وادیوں میں پیدل چلتے ہوئے کہا تھا ’’ہمیں وہ مچھلی یاد آتی ہے جو ہم مصر میں مفت کھاتے تھے۔‘‘ مشرقی پاکستان کی کوئی چیز ذاکر صاحب کو یاد ہے تو وہ مچھلی ہے جو وہ وہاں مفت کے داموں کھاتے تھے۔ سیانے کہتے ہیں ایک ہاتھ سے کام کرو تو دوسرے ہاتھ سے ڈھول ضرور پیٹو۔ مرغی ایک انڈہ دیتی ہے لیکن کٹاک کٹاک کی آواز سے گھر سر پر اٹھا لیتی ہے۔ ذاکر صاحب کو اپنے کام کی تشہیر کے لیے ڈھول پیٹنے کی ضرورت نہیں ان کی بلند وبالا آواز ہی کافی ہے۔ وہ ایک جماعت میں پڑھاتے ہیں تو ملحقہ کئی جماعتوں کے اساتذہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ طالب علموں کا قیمتی وقت ضائع کر سکیں۔ وہ صرف آواز ہی نہیں ہیں۔ ہمہ وقت مقابل کو سمجھانا، پڑھاتے پڑھاتے ان کی عادت بن گئی ہے۔ وہ عمران خان کے ساتھ چین گئے ہوتے تو چینیوں کو بھی سمجھارہے ہوتے کہ چین نے کس طرح ترقی کی ہے۔ وہ مفتیان کرام کو بھی نورانی قاعدہ پڑھانے سے باز نہیں آتے۔ کس جید عالم سے مخاطب ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شروع ہوجاتے ہیں ’’پہلا کلمہ آتا ہے؟۔ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پہلا کلمہ طیب۔ طیب معنی پاک۔ لاالہ الا اللہ محمد الر سول اللہ۔ اس میں لا کا مطلب سمجھتے ہیں آپ۔ لا کے معنی ہیں نہیں۔۔۔‘‘
ایک مرتبہ بولے ’’بچپن میں ایک اللہ والے نے ہمارے بارے میں کہا تھا یہ بہت آگے جائے گا‘‘ مولانا حنظلہ بولے ’’اللہ والے کا اشارہ آپ کے پیٹ کی طرف ہوگا‘‘ ذاکر صاحب ہر موضوع پر بات کرسکتے ہیں۔ ہر لفظ سے آشنا ہیں سوائے ڈائٹنگ کے۔ دو وقت کی روٹی کے وہ قائل نہیں۔ زندگی ان کے نزدیک وہ پل ہیں جس میں وہ زیادہ سے زیادہ کھا سکیں۔ ان کی زندگی کا حاصل وہ راتیں ہیں جن میں ساری رات مچھلی فرائی اور کھائی گئی ہو۔ باقی کھانوں کے آگے بھی ان کی رفتار سست نہیں پڑتی۔ ہم نے کبھی دسترخوان پر انہیں چٹخارے اور چسکے لیتے نہیں دیکھا۔ ان چونچلوں کے لیے ان کے پاس ٹائم نہیں۔ وہ مسلسل سپلائی جاری رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ معدہ خالی نہیں رہنے دیتے۔ ایک ایک ہڈی سے جب تک گودا نکال باہر نہیں کرلیتے، پلیٹ کو منہ لگا کر آخری قطرے تک شوربا نہیں پی لیتے وہ دسترخوان سے اٹھنا گناہ سمجھتے ہیں۔ پلیٹ میں انگلیاں ڈال کر وہ جس مشاقی سے بوٹیاں نکالتے ہیں اتنی تیزی سے تو طوائفیں بد ذوقوں کی جیبوں سے پیسے نہیں نکلواتیں۔ میرتقی میر نے کہا تھا ’’جن بلاؤں کو میر سنتے تھے۔ ان کو اس روزگار میں دیکھا‘‘ ذاکر صاحب کو کھاتے ہوئے دیکھنا بلاؤں کو دیکھنا ہے۔
انسان دن میں دوبار نیند لینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ذاکر صاحب ہر وقت سونے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مجاہدین کی لڑائی میں وقت نماز آئے نہ آئے ذاکر صاحب کی باتوں میں غنودگی کے لمحات ضرور آتے ہیں۔ وقفے وقفے سے سونا، ہڑ بڑا کر اٹھنا اور پھر گفتگو میں شریک ہونا ان کا معمول ہے۔ مجلس میں باتیں کرتے کرتے وہ جس کمال فن سے سو تے اور خوفناک خراٹے لینا شروع کردیتے ہیں آنکھوں اور گلے سے اس طرح کام لیتے ہم نے کم ہی لوگوں کو دیکھا ہے۔ ان کے خراٹوں کا شور اتنا ہوتا ہے کہ وہ خود گھبرا کر اٹھ بیٹھتے ہیں اور پریشانی کے عالم میں پاس بیٹھے شخص سے پوچھتے ہیں کیا ہوا کیا ہوا۔ ان کا دن عجب ہیجڑا جیسی کیفیت میں گزرتا ہے۔ نہ سوئے نہ جاگے۔ نہ عورت نہ مرد۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دن موٹر سائیکل چلاتے چلاتے سوگئے تھے۔ ان کی خراب صحت دیکھتا ہوں تو متردد ہوجاتا ہوں۔ اللہ انہیں صحت دے۔