زہر خورانی سے بچوں کی ہلاکت

209

کراچی میں ایک خاندان کے دو بچے زہر خورانی کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ماں کی حالت بھی غیر ہے۔ ابتدائی اطلاعات تو یہی بتارہی ہیں کہ ان لوگوں نے ہفتے کی رات ایک ہوٹل سے کھانا کھایا کچھ ٹافیاں وغیرہ لیں فرنچ فرائزکھائے اور اتوار کی صبح حالت غیر ہوگئی۔ بچوں کی نماز جنازہ اور تدفین ہوگئی، ماں اسپتال میں ہے فوڈ اتھارٹی کے نام سے قائم ادارے نے تین افراد گرفتار کرلیے ہیں، ہوٹل بند کردیا ہے، گھر سے کھانے کے نمونے بھی حاصل کیے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ہوٹل سے کھانا کھانے والے اور لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ بچوں کے معدے کا کوئی ٹیسٹ ہوا یا نہیں ان کے معدے میں کس قسم کی زہریلی اشیا تھیں۔ہوٹل کے کھانوں کا بھی معائنہ کرنا ضروری ہے۔ یہ افسوسناک سانحہ گزر گیا بچے واپس نہیں آسکتے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ گٹر، نالوں اور کچروں کے ڈھیروں کے ساتھ کھانے پینے کے اسٹالز، ریسٹورنٹ اور دیگر فوڈ چینز کھلی ہیں۔ فوڈ اتھارٹی کو معلوم نہیں کہ کلفٹن کے بیشتر ہوٹلوں میں کھانے میں لال بیگ ہوتے ہیں۔ پلیٹوں اور پیالوں میں لال بیگ ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی پورے شہر میں ٹماٹو کیچپ کے نام پر مضر صحت محلول بیچا جارہاہے۔ گٹکے وغیرہ الگ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈیڑھ سال اور پانچ سال کے بچے کیا کھا گئے ہوں گے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ فوڈ اتھارٹی کیا کررہی ہے؟ فوڈ اتھارٹی عارضی طور پر حرکت میں نہ آئے مسلسل کام کرے ورنہ ایسے حادثات ہوتے رہیں گے۔