ایمپریس مارکیٹ معاہدہ چٹکی بجاتے ختم!!!

364

بے اختیار میئر کراچی وسیم اختر نے تمام تر بے اختیاری کے باوجود ایمپریس مارکیٹ کے دکانداروں سے کیا جانے والا 30 سال قبل کا معاہدہ چٹکی بجاتے ختم کردیا۔ اب کوئی دکاندار ان سے بحث نہیں کرسکتا، کیوں کہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔ میئر صاحب نے پھر بھی ازراہ ہمدردی فرمایا ہے کہ کوشش ہوگی متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ شہر کو اصل حالت میں لے آئیں۔ انہوں نے بڑی آسانی سے کہا کہ ماضی میں جو ہوا وہ غلط تھا۔ پارک کی زمین پر مارکیٹیں غلط تھیں، ایمپریس مارکیٹ کے علاقے میں فی الحال ملبہ ہی ملبہ پھیلا ہوا ہے۔ حکومت کی رٹ قائم ہوگئی ہے۔ کراچی میں چیف جسٹس کے حکم پر ایمپریس مارکیٹ کو اصل حالت میں واپس لایا جارہا ہے۔ اس علاقے کو ماڈل علاقہ بھی بنایا جائے گا۔ لیکن اب چیف صاحب کو ان لوگوں سے بھی باز پرس کرنی چاہیے جنہوں نے یہ غیر قانونی معاہدے کیے تھے۔ 30 سال پہلے کے میئر کو طلب کیا جائے، یہیں کراچی میں کہیں گھوم رہے ہوں گے۔ کبھی اس در پر کبھی اُس در پر۔ فاروق ستار صاحب کے بعد کراچی کو چائنا کٹنگ ماسٹر ملے وہ بھی اسی شہر میں ہیں اور موجودہ بے اختیار میئر صاحب بھی کبھی وزیر کبھی مشیر داخلہ رہے۔ آج کل بے اختیار ہیں لیکن جنرل پرویز کے دور میں تو مکمل بااختیار تھے۔ اُمید ہے کہ چیف جسٹس صاحب غلط الاٹمنٹ، غلط معاہدوں کا بھی نوٹس لیں گے۔ اس معاملے میں نوٹس لینا اس لیے بھی آسان ہے کہ کسی کو قبر سے نہیں نکالنا پڑے گا، بلکہ سب حاضر ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ ان لوگوں کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کے اختیارات میں کہیں کوئی رکاوٹ ہے یا وہ مکمل آزاد ہے۔ یا پھر نوٹس لیتے ہی یہ بھی دل کے مریض بن جائیں گے۔ کوئی ملک سے باہر جائے گا اور کوئی اسپتال۔ اس سے قبل کہ نوٹس لیا جائے پہلے ان لوگوں کے میڈیکل چیک اپ کرالیے جائیں پھر طلب کیا جائے۔ بعد میں بیماری کا بہانہ نہیں بنے گا۔ چیف صاحب آپ نے شہر سے تجاوزات کا خاتمہ کرنے کا نیک کام کیا ہے لیکن یہ تجاوزات قائم کرانے والے آزاد اور معزز رہیں اور دکاندار اور تاجر رُل جائیں یہ ادھورا انصاف ہوگا، سب کو کٹہرے میں لائیں۔