میری مرادوزیر اعظم عمران خان، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار ہیں، جو اس وقت اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں مناصبِ جلیلہ پر فائز ہیں، اُن کی زبان اور قلم سے نکلے ہوئے الفاظ حکم کا درجہ رکھتے ہیں، قانون بن جاتے ہیں اور نافذ العمل ہوتے ہیں۔ بلاشبہ مناصب عزت ووقار کی علامت ہوتے ہیں، لیکن حقیقی اور دیرپا عزت وہی ہے جو منصب کی مرہونِ منّت نہ ہو، حقیقی عظمت یہ ہے کہ منصب سے فراغت کے بعد لوگوں کے دلوں میں عزت واحترام پہلے سے زیادہ ہو۔ جن پروفیسر صاحبان کی بے توقیری پر سب اہلِ فکر ونظر بے اختیار چلّا اٹھے، اُن کے پاس اس وقت نہ کوئی منصب ہے، نہ کسی کو نوازنے کے لیے کوئی اختیار، لیکن کوئی تو بات ہے کہ سب نے اُن کی بے توقیری پر دکھ کا اظہار کیا، اسے علم کی بے توقیری سے تعبیر کیا اور قرار دیا کہ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں استاذ کے منصب کا احترام کرتی ہیں، یہ احترام علم کا ہوتا ہے اور شخصیت سے بالاتر ہوتا ہے، آج ترقی یافتہ اقوام علم کا پرچم بلند کرکے دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔
ان سب اہلِ مناصب کو یہ باور کرنا چاہیے کہ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت مسلمانانِ پاکستان کے لیے حساس موضوعات ہیں، ہوسکتا ہے کسی صاحبِ دانش کے نزدیک ایسے لوگ جذباتی ہوں، جنونی ہوں، مغلوب الغضب ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامیانِ پاکستان، جن پر آپ حکمرانی فرمارہے ہیں، کی اکثریت ایسی ہی ہے۔ کیا آپ اپنے ضدی بچوں کو گوارا نہیں کرتے، اُن کی نازبرداری نہیں کرتے، انہیں مار پیٹ کے بجائے پیار چمکار سے نہیں سمجھاتے، یہی برداشت ہر صاحبِ اقتدار کو قوم کے لیے ہونی چاہیے، کیوں کہ وہ قوم کا مُربّی ہوتا ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامّل نہیں ہے کہ بحیثیت مجموعی اس موقع پر ان تینوں اہل مناصب نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا، آخر میں وزیر اعظم نے اعتراف بھی کیا کہ بے تدبیری کے نتائج خطرناک بھی ہوسکتے تھے۔
اس وقت پارلیمنٹ کے اندر نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے لبرلز اپنی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہوکر ایک پیج پر آچکے ہیں اور پارلیمنٹ سے باہر بھی صورتِ حال یہی ہے، انہیں دکھ ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو مار پیٹ کر نشانِ عبرت کیوں نہ بنادیا گیا، ان کے خلاف انتہائی اقدام کیوں نہ اٹھایا گیا۔ یہ آئین اور قانون کی دہائی دے رہے ہیں، آئین کی حرمت تو ماضی میں بھی پامال ہوتی رہی ہے، قانون کی بے توقیری بھی ہوتی رہی ہے، لیکن مصلحت سے کام لیا گیا، صبر وتحمل کے شعار کو اختیار کیا گیا، اب تو سب شہادتیں سوشل میڈیا پر ہر وقت گردش کرتی رہتی ہیں، تو صرف ایک طبقے کے خلاف اس قدر اشتعال کیوں؟۔
سیاسی پولرائزیشن تو پہلے سے اپنی انتہا پر ہے، اب معاشرے کو ایک اور پولرائزیشن یا تصادم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ ہے: ’’لبرل ازم بمقابلہ مذہب‘‘، یعنی آپ ایسا ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ مذہبی قوتیں یک جا ہوجائیں اور معاشرہ باہمی محاذ آرائی کے ذریعے شکست وریخت سے دوچار ہوجائے۔ بعض لبرل دوست تکرار کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی لاکھوں لوگ نہیں تھے، چند سو یا چند ہزار تھے، اس تجزیے کا مفہومِ مخالف یہ ہے کہ اگر لاکھوں لوگ نکل آئیں تو پھر برداشت کرنے کا جواز موجود ہے، تو کیا یہ ہزاروں اس قوم کے فرزند نہیں ہیں، مزید یہ کہ چند سو یا چند ہزار ایک وقت میں ملک کے بیش تر حصے کو مفلوج نہیں کرسکتے، جب کہ میڈیا تو ملک کے بڑے شہروں کے مفلوج ہونے کی خبردے رہا تھا، کامران خان صاحب نے اپنے پروگرام میں تسلیم کیا کہ یہ دسیوں لاکھ لوگ تھے۔ ان حضرات کو باور کرنا چاہیے کہ خواہ سلامتی کے اہلکار ہوں یا احتجاج کرنے والے، سب کا خمیر اسی وطنِ عزیز کی مٹی سے اٹھا ہے، یہ جلیاں والا باغ نہیں ہے، جہاں استعماری حاکم کسی اور سرزمین سے آئے تھے اور محکومین اس سرزمین کے تھے۔ الحمد للہ حاکم ومحکوم سب کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔
عمران خان کی حکومت قائم ہوئے ابھی سو دن بھی نہیں ہوئے۔ ہماری رائے میں عدم تصادم، سیاسی استحکام اور امن ان کی حکومت اورملک وملت کے مفاد میں ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنے ہر پیغام میں امن کی تلقین کی ہے، مسلسل کہتا رہا ہوں کہ بلا امتیاز سب شہریوں کے جان ومال اور آبرو کا تحفظ کیا جائے، قومی اور نجی اَملاک کو ہرگز نقصان نہ پہنچایا جائے، کوئی بھی محب وطن اور ذی شعور شخص ملک میں فساد، لوٹ مار، اَملاک کی تباہی، جانی نقصان اور قانون شکنی کی حمایت نہیں کرسکتا اور نہ کرنی چاہیے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض اوقات ایسے مواقع پر فسادی عناصر ہجوم میں نفوذ کرلیتے ہیں اور اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں، لیکن ان کی چھان بین اور شناخت کے لیے تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے، حکمت ودانش کا تقاضا یہ ہے کہ بلا تمیز پکڑ دھکڑ اور کریک ڈاؤن سے گریز کیا جائے اور ضبط سے کام لیا جائے۔
مسلح افواج کو معلوم ہے کہ اہلسنت ہر مشکل مرحلے پر ان کی حمایت وتائید کرتے رہے ہیں، ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں رہا اور کبھی بھی سلامتی کے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی یا مخاصمت کی طرف نہیں گئے۔ یہ محض مفروضہ یا ادّعا نہیں ہے، تاریخی حقیقت ہے، اگر کوئی اپنے وطن کی تاریخ اور ماضی سے آگاہ ہے، تو اس پر سب کچھ عیاں ہوگا۔ جذباتی صورت حال میں بعض افراد سے بے اعتدالی ہوجاتی ہے، ایسی کیفیات پر قابو پانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اُن سے درگزر کیا جائے۔ جب ہم سب سے تحمل کی اپیل کرتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بے اعتدالی پر مبنی کسی بات کی حمایت کر رہے ہیں، ریاستوں کے لیے کسی کو نشانِ عبرت بنانا آسان ہوتا ہے، لیکن اس کے مابعد آثار تاریخ میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ تحریکِ لبیک کے ایک رہنما کے بعض کلمات یقیناًغیر محتاط اور قابلِ گرفت تھے، ہمیں اس پر شدید دکھ اور افسوس ہے، اُن کا کسی بھی درجے میں کوئی جواز نہیں بنتا، اس پر انہوں نے پوری جماعت کی طرف سے اجمالی طور پر معذرت کرلی ہے، اُسے قبول کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔ بے اعتدالی تو اوروں سے بھی ہوجاتی ہے، وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے کہا: ’’ہم سپارکو سے کہتے ہیں کہ انہیں خلا میں لے جائیں اور واپس نہ آنے دیں‘‘، اردو محاورے میں اوپر بھیجنے کے معنی موت کی دھمکی دینے کے ہوتے ہیں، لیکن فواد چودھری صاحب بغیر سوچے سمجھے بولنا اپنا کمال سمجھتے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ خادم حسین رضوی اپنے کراچی کے دورے کے موقع پر بدھ کی رات ملاقات کے لیے تشریف لائے، میں نے اُن کی خدمت میں بھی چند گزارشات پیش کی ہیں، انہوں نے میری باتوں کو تحمل سے سنا، سب کو مل کر اس مشکل سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے اور کوئی تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔ لبرل حضرات کو بھی چاہیے کہ میڈیا کے مورچوں میں بیٹھ کر شعلہ بیانی سے گریز کریں، حالات کو معمول پر لانے میں مدد کریں، آگ لگانا آسان ہے، بجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ شیشے کے گھروں میں بیٹھے ہوئے دانشِ حاضر کے خود ساختہ امام اکثر جواں عمر ہیں۔ ہم نے 1960 کے عشرے سے پاکستان کی تاریخ کا شعوری طور پر مشاہدہ کیا ہے اور برتا بھی ہے، کئی اتارو چڑھاؤ دیکھے ہیں، پاکستان کو دولخت ہوتے ہوئے دیکھا ہے، ہماری نسل کے کرب کا ادراک ان جواں عمر لوگوں کو نہیں ہے۔ ان میں جو سب سے زیادہ جَہیرُ الصّوت ہے، وہ سب سے بڑا دانش ور ہے۔ چند بزرگ نامور صحافی ہیں جو اُس کرب سے گزرے ہیں جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور وہ سفرِ حیات کی اس منزل میں ہیں، جس کے بیان کے لیے انشاء اللہ خان انشاء کی اس غزل کا مطلع اور مقطع کافی ہے:
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا، انشاءؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
بدھ کو یہاں تک لکھ پایا تھا: ایک دوست کا برقی پیغام آیا: ’’انگلش اخبار ’’دی نیوز‘‘ میں ضیغم خان صاحب کا مضمون پڑھ لیں‘‘، میں نے نیٹ پر یہ مضمون پڑھا۔ ان کے غیظ وغضب کا بنیادی نشانہ تو علامہ خادم حسین ہیں، لیکن انہوں نے ریاستی اداروں اور حکومت پر بھی چاند ماری کی ہے، ان کی خواہش ہے کہ مذہب کا حوالہ ہمیشہ کے لیے ریاست وسیاست سے خارج ہوجائے۔ لیکن انہوں نے ایک اعتراف بھی کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے اشرافیہ اور مڈل کلاس کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، جبکہ تحریک لبیک نے زیریں طبقات کو اپنے اردگرد جمع کیا ہے، یہ ایک طرح سے تحریک لبیک کی عوامی قبولیت کا اعتراف ہے۔ ضیغم خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ تحریکِ لبیک نے ڈی ایچ اے سمیت کراچی کے پوش علاقوں سے بھی مُعتد بہ ووٹ لیے ہیں۔ دیگر مذہبی جماعتوں کے جلوسوں اور ریلیوں میں آپ کو ایک خاص وضع کے لوگ نظر آئیں گے، جبکہ تحریکِ لبیک کے اجتماعات میں ہر طبقے کے لوگ نظر آئیں گے۔ اگر تحریکِ لبیک اپنے آپ کو صحیح معنی میں سیاسی بنادے اور عوامی مسائل کو لے کر آگے بڑھے، تو ان کی کامیابی کے امکانات اور زیادہ روشن ہوسکتے ہیں، لیکن اس کا تعلق بصیرت، عقل ودانش اور تدبر سے ہے، اس کے لیے جذباتی فضا سے نکل کر کھلے ذہن کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ باشعور اور مدبّر سیاستدان کبھی بھی خود کو اور اپنے لوگوں کو بند گلی میں نہیں لے جاتے، ماضی میں عمران خان بھی ڈیڈ لائن دیتے رہے ہیں، لیکن انہیں بھی بادلِ ناخواستہ ہی سہی، اس سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ درست ہے کہ بعض شرعی مُقدَّسات کے لیے ہم اپنی بساط کے مطابق آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن طریقے سے انتہائی حد تک جدوجہد کے مکلف ہیں، لیکن سرخ لکیر کو کبھی بھی عبور نہیں کرنا چاہیے، اصل مسئلے پر تمام دینی قوتیں یکسو اور یک آواز ہیں، جس طرح لبرل آج ایک پیج پر جمع ہیں۔