ایمپریس مارکیٹ 1857کے شہداء کا مقتل

750
۔1857کی جنگ آزادی میں بغاوت کرنے والے برصغیر کے سپاہیوں کو اسی ایمپریس مارکیٹ والی جگہ ان کے سروں کو توپ سے باندھا اور اڑایا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان کے حکم سے ایمپریس مارکیٹ کو ماڈل علاقہ بنانے کے کام کا آغاز ہوا تو تاثر تھا کہ دو ایک روز میں آپریشن رک جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا کوئی مک مکا نہیں ہوا شاول چلتے رہے، بلڈوزر اپنا کام کرتے رہے اور پانچ چھ دن میں ایمپریس مارکیٹ کے گرد قائم دکانوں کا جنگل صاف ہوگیا۔ بہت سی دکانوں کے بورڈز جو قانون کے مطابق لگے ہوئے تھے وہ بھی ٹوٹ گئے لیکن ایسا ہوجاتا ہے۔ مجموعی طور پر فیصلہ نظر آنے لگا ہے۔ اتوار 11نومبر کی شام کو تمام نیوز ایجنسیوں نے ایمپریس مارکیٹ کی جو تصویریں جاری کی ہیں ان کے مطابق علاقہ واقعی خوبصورت لگ رہا ہے اور بلدیہ کے ذمے داروں نے دعویٰ کیا ہے کہ پندہ بیس دن میں علاقہ صاف ہوجائے گا۔ مجوزہ منظور شدہ پلان بھی گردش میں ہے لیکن ایک لمحے کے لیے غور کریں ذرا سوچیں یہ کیا ہونے جارہا ہے۔


جس روز سے یہ آپریشن شروع ہوا ہے اسی روز سے ہمارے ذہن میں یہ خیال تھا کہ ایمپریس مارکیٹ ہی کو ماڈل علاقہ کیوں بنایا جائے۔ ریگل چوک بھی ہوسکتا تھا۔ چناں چہ ایمپریس مارکیٹ کی تاریخ کھنگالی، کھنگالی بھی کیا جوں ہی ایمپریس مارکیٹ لکھا سامنے جو کچھ آیا اس نے حواس اُڑا دیے ساری صفائی، چم چم کرتا مجوزہ پلان دور سے نظر آنے والی تاریخی عمارت، یہ عمارت ہے کیا۔ 1884سے 1889کے درمیان یہ تعمیر کی گئی تھی۔ ایمپریس مارکیٹ ایمپریس آف انڈیا ملکہ وکٹوریہ کی یادگار کے طور پر بنائی گئی تھی برصغیر میں ملکہ برطانیہ کی یادگاریں جا بجا پھیلی ہوئی ہیں۔ لاہور میں ملکہ کا بت بھی تھا جو نابود ہوا۔ پاکستان کے کئی شہروں میں ملکہ، وائسرائے اور لارڈز کے نام سے شہر، تفریح گاہیں سڑکیں وغیرہ موجود ہیں۔ لیکن ایمپریس مارکیٹ میں ایک خاص بات ہے۔ وہ بات کیا ہے؟ ذرا دل تھام کر پڑھیں۔
ایمپریس مارکیٹ کے لیے جگہ کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا دور سے نظر آنے والی جگہ ہے۔ اس کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ تعمیر سے کوئی تیس بتیس برس قبل 1857کی جنگ آزادی میں بغاوت کرنے والے مقامی یا برصغیر کے سپاہیوں (بلاتخصیص مسلمان وغیر مسلم) کو اسی میدان میں توپ دم کیا گیا تھا۔ یعنی ان کے سروں کو توپ سے باندھا اور اڑایا گیا تھا۔ ان میں سے بیش تر 21ویں رجمنٹ کے سپاہی تھے جن کی قیادت رام دین پانڈے اور سورج بالی تیوری کررہے تھے۔ ان کا تعلق لکھنؤ، دہلی اور بنگال سے تھا۔ یہ کل 44 لوگ تھے۔ آج بھی ایسی سزائیں دی جائیں تو انسانی حقوق کے نام نہاد ادارے بھی چیخ اٹھیں گے۔ اس کا مقصد محض یہ تھاکہ برصغیر کے مقامی لوگوں میں (آزادی) بغاوت کی ذرا بھی رمق پیدا ہو تو وہ ان کے ذہنوں سے نکل جائے۔ بمبئی کے گورنر جیمز فرگوسن نے 1884ء میں اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ وہی فرگوسن ہیں جنہوں نے سر ولیم لاکیئر میری ویدر کے نام پر 1884میں میری ویدر ٹاور کی بنیاد رکھی جو 1892 میں مکمل ہوا۔ بہر حال ایمپریس مارکیٹ جس چیز کی یادگار ہے اسے اب ہمیں بھی سمجھ لینا چاہیے اس جگہ کو صاف ستھرا کرنا بڑا اچھا ہے۔ اس جگہ ٹریفک کی روانی بھی اچھی لیکن کیا ہم ایمپریس آف انڈیا ملکہ وکٹوریہ کو سلامی دے رہے ہیں۔ اس عمارت کے ڈیزائنر جیمز اسٹریچن تھے اس نام سے بھی سڑکیں پاکستان کے شہروں لاہور اور کراچی میں موجود ہیں۔ اس کی بنیادیں برطانوی کمپنی نے مکمل کیں اور تعمیر مقامی ٹھیکیداروں محمود نوان اور دُلّو کھیجو نے مکمل کی۔
اسی عمارت کو اصل شکل میں بحال کرنے پر ہمیں تحریک آزادی ہند کے ان ہیروز کی یاد ضرور آئے گی جن کو توپ سے باندھ کر اُڑا دیا گیا تھا۔ اگر کسی وجہ سے اس کی تاریخ پر نظر نہیں گئی ہو تو بھی اب اسے اس شکل میں بحال نہ کرنا بہتر ہے۔ بلکہ یہاں تو یادگار تحریک آزادی اور یادگار شہدا تعمیر ہونی چاہیے۔ تاریخ دانوں کو دعوت ہے کہ وہ بتائیں یہاں کس کس مقامی سپاہی کو شہید کیا گیا۔ اگر عمارت کے نئے ڈیزائن اور خوبصورتی کی قیمت پر ہم ملکہ وکٹوریہ کو یاد کریں اور اپنے آزادی کے ہیروز کو بھول جائیں تو یہ غیرت کا سودا ہوگا۔ دکانداروں کا اتنا بڑا نقصان بھی برداشت کرلیا جائے گا اگر ہماری حکومت اس جگہ کو بالکل صاف کردے۔ بھارت میں تو اب بھی ان یادگاروں کو مسمار کیا جارہا ہے جن کا تعلق مغل بادشاہوں سے ہو یا ان کے نام اس میں شامل ہوں۔ وہ شہروں کے نام بھی بدل رہے ہیں۔ لیکن ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ انگریزوں کے دیے ہوئے نام بدلنے میں بھی تیس پینتیس برس لگا دیتے تھے اب بھی بہت سے علاقے اور سڑکیں موجود ہیں۔ لیکن ایمپریس مارکیٹ ایسی چیز ہے کہ اس کا نام بدل کر بھی انگریزوں کی وحشیانہ کارروائی کی یاد محو نہیں ہوسکے گی۔ اس کی لمبائی چوڑائی اور وسعت کو دیکھا جائے تو تجاوزات کے خاتمے کے بعد یہ بہت وسیع مارکیٹ کا منظر پیش کرے گی۔ اس کا صحن تقریباً 130فٹ لمبا اور 100فٹ چوڑا ہے۔ اس کی چار گیلریوں میں 280 دکانوں اور اسٹالز کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ہر گیلری 46فٹ چوڑی ہے۔ جس وقت یہ تعمیر ہوئی تھی کراچی میں مجموعی طور پر سات مارکیٹیں تھیں۔ بہر حال جب یہ حقیقت سامنے آگئی کہ اس جگہ کا انتخاب، اور مقصد کیا ہے اس کے بعد اس کی خوبصورتی تاریخی اہمیت وغیرہ کی کوئی وقعت نہیں۔ 1857کے ہیروز کی سزا کے بعد لوگ عرصے تک یہاں پھول چڑھایا کرتے تھے انگریزوں کو خوف ہوا کہ کہیں یہ یادگار شہدا نہ بن جائے اس لیے اس جگہ ایمپریس مارکیٹ بنادی گئی۔