29اکتوبر کو آسیہ مسیح کا جو فیصلہ آیا اس کے بعد ملک میں اچانک صورت حال تبدیل ہوگئی پورے ملک میں ہر شہر کے اندر اہم مقامات پر تحریک لبیک نے دھرنے کا آغاز کردیا۔ اکتوبر کے شروع میں عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ پھر ایک ایسے موقع پر یہ فیصلہ سنایا گیا جب کہ وزیر اعظم صاحب کو چین کا دورہ کرنا تھا، فیصلے تو مہینوں محفوظ رہتے ہیں یہ بھی اگر کچھ ماہ محفوظ رہتا تو کیا حرج تھا۔ لیکن ایک ایسے موقعے پر جب پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے یورپی یونین جو پچھلے ایک سال سے آسیہ مسیح کے مسئلے پر متحرک کردار ادا کررہی ہے ویسے تو یورپی یونین سمیت تمام مغربی ممالک آسیہ ملعونہ کی رہائی کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں، لیکن اس وقت چوں کہ پاکستان معاشی گرداب میں گھرا ہوا ہے اس لیے یہ ان کے لیے سنہری موقع ہے کہ عدالت کے ذریعے رہائی دلائی جائے اور نئی حکومت کو یہ باور کرایا جائے کے اگر انہیں اپنے معاشی کرب سے کچھ ریلیف حاصل کرنا ہے تو آسیہ مسیح کو رہائی دلائی جائے۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ گواہوں کی تعداد اور بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے اس لیے شک کا فائدہ مجرم کو ملنا چاہیے چلیے تھوڑی دیر کے لیے ججوں کی بات کو مان لیا جائے حالاں کہ مجرم مجرم میں فرق ہوتا ہے چوری ڈکیتی اور قتل وغیرہ کے مجرمان ہوں تو آپ شک کا فائدہ دے دیں لیکن توہین رسالت کے مجرم کو تو کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دینا چاہیے۔ گواہوں کی بات تو ایک طرف رکھتے ہیں ’نبی کریم ؐ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور آپؐ سے کہا کہ یا رسول اللہ مجھے پاک کر دیجیے مجھ سے زنا کا گناہ سرزد ہو گیا ہے آپ ؐ نے اس سے بہت سے سوالات کیے یہاں تک پوچھا کہ جس طرح سوئی کے ناکے میں دھاگا جاتا ہے اس طرح عمل کیا اس نے ہاں میں جواب دیا پھر آپؐ نے رجم کا فیصلہ دیا‘ اور اسے رجم کردیا گیا اب یہاں پر تو کوئی ایک بھی گواہ نہیں تھا صرف ملزم کے اپنے اقرار نے اسے مجرم بنادیا اور اسے سزا دے دی گئی آسیہ مسیح نے تو پولیس کے سامنے بھی اقرار کیا کہ اس نے شان رسالت میں توہین کی ہے۔ پھر ٹرائل کورٹ کے جج کے سامنے بھی اپنے جرم کا اقرار کیا دو اہم فیصلوں کے مقامات پر آسیہ کا اقرار ہی اسے مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، ورنہ تو عام حالات میں ہوتا یہ ہے کہ ایک ملزم پولیس کے سامنے تو اپنے جرم کا اقرار کرلیتا ہے لیکن مجسٹریٹ کے سامنے جا کر اپنے بیان سے مکر جاتا ہے اور اس ملزم کا وکیل عدالت میں کہتا ہے کہ اس پر تھانے میں تشدد کیا گیا اس تشدد کے خوف سے اس نے جھوٹے جرم کا اقرار کیا ہے اب یہ سچ بول رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد پورا ملک تین دن کے لیے بند ہو گیا تھا پنجاب میں کہیں کہیں کچھ تشدد بھی ہوا کئی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا تحریک لبیک کے رہنماؤں کی طرف سے ججوں کو واجب القتل قرار دیا گیا فوج کے سربراہ کے بارے ایک جھوٹی بات کہی گئی پورے ملک میں ایک جذباتی فضاء بنائی گئی اس سے پہلے آئین میں ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کے حوالے پچھلے سال جو پورے ملک میں تحریک لبیک کی طرف سے دھرنے دیے گئے اس میں اگر ن لیگ کے متعلقہ وزیر استعفا نہیں دیتے اور تحریک لبیک کے دیگر مطالبات تسلیم نہ کیے جاتے تو پورے ملک میں ایک خوفناک صورت حال بننے جارہی تھی کہ شاید حالات پھر کسی کے بھی کنٹرول میں نہ رہتے جب یہ معاہدہ ہوگیا تو پورے ملک میں سکون کا سانس لیا گیا۔ اس دفعہ بھی کم و بیش کچھ ایسی ہی صورت حال بن گئی تھی کہ اگر وزیر اطلاعات اور وزیر مذہبی امور حکمت و دانش سے مذاکرات میں کامیابی حاصل نہ کرپاتے تو پورے ملک میں ایسی آگ لگتی جو شاید کسی کے بجھائے نہ بجھتی عشق رسول میں لوگ اپنا سینہ کھول کے پولیس اور رینجرز کے سامنے آتے اور کہتے کہ مارو ہمارے سینے پر گولیاں۔ آج ہمارے بیش تر صحافی اور دانشور حکومت پر تنقید کررہے ہیں کہ چند مٹھی بھر لوگوں نے سڑکوں کو بلاک کرکے اور دھرنے دے کر حکومتی رٹ کو چیلنج کردیا اور انتظامیہ تماشا دیکھتی رہی، وہ چاہتی تو ان چند شرپسندوں کو قابو میں کرسکتی تھی، کہنے کو تو یہ باتیں اب بہت آسان نظر آتی ہیں لیکن اگر اس ٹکراؤ میں کہیں کوئی جانی حادثہ ہوجاتا تو یہ چند لوگ آن واحد میں بہت بڑی اکثریت میں تبدیل ہو جاتے۔
1977کی تحریک نظام مصطفی میں ہمارا یہ مشاہدہ رہا ہے ہم پانچ چھ نوجوان نعرے بازی کرتے ہوئے جلوس کا آغاز کرتے اور تھوڑی دیر بعد یہ چند نفوس سیکڑوں اور ہزاروں میں بدل جاتے ایسی جذباتی تحریکیں جن میں مذہب بلکہ عشق نبی کا تڑکا لگا ہو وہ پھر سارا نظام درہم برہم کردیتی ہیں۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں موجودہ حکومت نے انتہائی حکمت اور دانش مندی سے مذاکرات کامیاب کرکے سیاسی مخالفین کو مایوس کردیا جو یہ چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ شدت اختیار کرجائے اور ملک کا منظر نامہ یکسر بدل جائے، کرپشن اور احتساب کی باتیں پس منظر میں چلی جائیں اور حکومت کچھ دوسرے مسائل میں الجھ کر رہ جائے ذرا اندازہ کیجیے اس بات کا کہ وزیر اعظم چین کے اہم دورے پر ہوں ملک میں پر تشدد ہنگامے شروع ہو جائیں تو پھر دورے کے اہداف حاصل کرنا کتنا مشکل ہو جاتا۔
ملک کے معروف دانشور محمود شام نے اپنے ایک مضمون میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام جیسی جماعتیں بے اثر ہوگئیں اور ایک کل کی جماعت تحریک لبیک جب چاہتی ہے لوگوں کو سڑکوں پر لے آتی ہے جبکہ مذکورہ بالا دینی جماعتیں 1977 کی تحریک میں عوام کو سڑکوں پر لے آئیں تھیں۔ ویسے یہ ایک تفصیلی موضوع ہے 1977کی تحریک اصلاً تو بھٹو سے نفرت بنیاد پر شروع ہوئی اور یہ نفرت عوام میں سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے تھی کے مغربی پاکستان کے عوام کی اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ ہمارے مشرقی بازو کی علیحدگی میں بھٹو صاحب کی ہوس اقتدار بھی ایک اہم وجہ تھی بعد میں اس تحریک کو تحریک نظام مصطفی کا عنوان دے دیا گیا اب ہمارے معزز دانشور یہ بات تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان کا دھرنا ہو یا تحریک لبیک کا ایک مضبوط پشت پناہی کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا تحریک لبیک کے سابقہ دھرنے کے بعد شرکاء میں لفافے تقسیم کرتی ہوئی فلم تو تقریباً ہر چینل نے دکھائے تھی اور تمام صحافی اور دانشوروں نے بھی اسے ضرور دیکھا ہوگا۔
اب آگے کیا ہوگا؟ نظرثانی کی درخواست داخل ہوگئی؟ اس کی سماعت کب شروع ہوگی؟ کیا فیصلہ ہوگا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ مسئلہ اب بھی لاینحل ہے فضاء میں معلق ہے اب چاہے شکیل آفریدی امریکا چلے جائیں وہاں سے ڈاکٹر عافیہ واپس آجائیں لیکن توہین رسالت کے مجرم کے حوالے سے پاکستانی عوام کسی مفاہمت کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے جو کچھ ہوا ہے یہ ایک عارضی فائر بندی ہے، پارٹی (جنگ) تو اب شروع ہوئی ہے۔