نااہلی مگر کس کی ؟ 

329

عدالت عظمیٰ نے گزشتہ منگل کو بہت سخت تبصرہ کیا ہے کہ کوئی اہلیت ہے نہ صلاحیت اور منصوبہ بندی، بہت ہی نیا پاکستان بن رہاہے۔ یہ حکومت کی عمومی کارکردگی پر چیف جسٹس ثاقب نثار کی رائے ہے تاہم اگلے دن چیف جسٹس نے اپنے تبصرے کو حکومت سے منسوب کرنے کی تردید کرتے ہوئے دو اخبارات کوشوکاز نوٹس جاری کردیے ہیں جن کی سرخی یہ ہے کہ حکومت میں اہلیت ہے نہ صلاحیت۔یہ صرف بنی گالا تجاوزات اور سی ڈی اے کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو، تب بھی بنی گالا تجاوزات کا تعلق وزیر اعظم عمران خان سے بھی ہے جن کو بار بار انتباہ کیا گیا ہے کہ بنی گالا میں اپنے محل کو ریگولرائز کرالیں۔ چونکہ یہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ ہے اس لیے مہلت ملنی ہی چاہیے ورنہ عام افراد کے مکانات تو بغیر کوئی مہلت دیے گرائے جارہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے تبصرے میں یہ طنز بھی ہے کہ ’’ بہت ہی نیا پاکستان بن رہا ہے‘‘۔ اس سے یہ واضح ہے کہ بات پورے پاکستان اور اس پر حکومت کرنے والوں کے بارے میں ہے۔ نیا پاکستان صرف بنی گالا میں نہیں بن رہا۔ عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو ( نیب) پر بھی گرفت کی ہے کہ وہ سب کو پکڑے یا سب کو چھوڑ دے، دونوں آنکھیں کیوں نہیں کھولتا۔ یہی اعتراض حزب اختلاف بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی طرف سے کیا جارہا ہے ، پی ٹی آئی کے جن رہنماؤں پرریفرنس دائر ہیں انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ ایسے لوگو ں میں جہانگیر ترین، علیم خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ عمران خان کو تو استثنا مل گیا ہے۔ اب عدالت عظمیٰ میں موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کا ایک پرانا معاملہ بھی سامنے آگیا ہے۔ یہ راولپنڈی کے موضع تخت پڑی کے جنگلات کی اراضی کا معاملہ ہے۔ اس مقدمے میں وکیل صفائی معروف بیرسٹر اعتزاز احسن ہیں جنہوں نے معاملے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ 1956ء کے ریکارڈ کے مطابق محکمہ جنگلات کی 1741 ایکڑ اراضی کا اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کی منظوری سے تبادلہ کیا گیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیر اعلیٰ کیسے اس کی منظوری دے سکتا ہے، وزیر اعلیٰ کون تھا ؟ فاضل وکیل نے بتایا کہ اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اس اراضی میں سے 270کینال وزیر اعلیٰ کے خاندان کے لوگوں میں بانٹ دی ۔ اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اعتزاز احسن صاحب کیا یہ نیب ریفرنس کا فٹ کیس نہیں ہے؟ بڑے بڑے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں دخل دے کر بڑے بڑے فائدے حاصل کرلیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام چودھری خاندان کو نوٹس جاری کردیتے ہیں کہ کیوں نہ یہ معاملہ نیب کو بھجوادیا جائے، ایک انچ زمین پر بھی قبضہ برداشت نہیں کریں گے، لوگوں کو مار کر چھین کر زمینوں پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے، ہم پرویز الٰہی کے حوالے سے تحقیقات کروا لیتے ہیں۔ کل تک رپورٹ آجائے گی۔ امریکی صدرکو واشنگٹن میں ایک کھوکھا تک الاٹ کرنے کی اجازت نہیں۔ لیکن وہ امریکا ہے، پاکستان میں تو ایک تھانے دار بھی کھوکھے لگوا سکتا ہے۔ ایک خبر ایک اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف سے متعلق ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں پاک پتن میں بابا فریدؒ کی درگاہ کے اطراف کی متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی پر دکانیں تعمیر کروا دیں۔ تاہم عدالت میں سماعت کے دوران میاں نوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ بطور وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اگر نوازشریف نے دستخط نہیں کیے تو اس کا مطلب ہے کہ جعل سازی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم خود نواز شریف کو بلا کرپوچھ لیتے ہیں۔ بہرحال پاکستان میں زمینوں پر قبضے اور با اثر طبقات کی طرف سے غلط بخشیوں کا سلسلہ پرانا ہے مگر اب عدالت عظمیٰ نے عزم ظاہر کیا ہے کہ کسی کو ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر اعظم سواتی کے معاملے کو بھی دیکھ لیا جائے جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک انچ زمین پر بھی ناجائز قبضہ نہیں کرر کھا۔ جہاں تک کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، سی ڈی اے کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ حکمرانوں کے تابع رہا ہے اور قیمتی زمینوں پر قبضے، جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ اب وزیر اعظم نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد کا ماسٹر پلان تبدیل کیاجارہا ہے، چند ماہ میں تبدیلی نظر آہی جائے گی۔