صاحبو! مہنگائی کا کیا کہیے، ایک نوکری میں گزر کرنا دشوار ہے۔ کئی جگہ منہ ماریں تب ایک لقمہ تر کی صورت بنتی ہے۔ دیکھا جائے تو مسئلہ اس لقمہ تر ہی کا ہے۔ کوئی اپنی حد میں رہنے اور روکھی سوکھی کھانے کو تیار نہیں۔ مہنگائی کا مقابلہ قناعت سے کرنے کے بجائے سب زیادہ سے زیادہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اتنا کمائے اتنا کمائے کہ چلغوزے بھی سستے لگنے لگیں۔ کمانے کے ان بے کیف اور بے رنگ روز وشب میں کوئی واقعہ ایسا سامنے آجاتا ہے کہ لطف دے جاتا ہے۔ اس پر بات کرنے سے پہلے ایک واقعہ سن لیجیے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران حکومت برطانیہ کو اپنے ہندوستانی غلاموں سے قرض لینے کی ضرورت پیش آگئی۔ عوام سے اپیل کے لیے جو فقرہ منتخب کیا گیا وہ کچھ اس طرح تھا۔ ’’قرض اور فرض میں ایک نکتے کا فرق ہے۔‘‘ ایک نکتہ محرم سے مجرم بنا دیتا ہے اور قرار کو فرار۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم کے دورہ چین کے موقع پر ایک حرف کی تبدیلی نے ہمیں بیجنگ میں بیگنگ کردیا۔ خبر یوں ہے کہ عمران خان کے دورہ بیجنگ کی رپورٹنگ کے دوران پی ٹی وی کی اسکرین پر بیجنگ کے بجائے لفظ بیگنگ پورے بیس سیکنڈ جگمگ جگمگ کرتا رہا۔ بیگنگ کی اس جگمگ چنریا کے نیچے جو سوئی ہوئی تھی وہ ہماری ضرورت تھی۔ ملک چلانے کے لیے قرض۔ پاکستان کے باب میں قرض کو مصور کیا جائے تو بھکاری کے ہاتھ میں پکڑے کشکول کا تصور ہی ذہن میں ابھرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں موجود یہی تصور سرکاری ٹی وی کی اسکرین پر متشکل ہو گیا ہو۔ بہر حال وجہ کچھ بھی ہو بات دلچسپ اور حقیقت کے قرین تھی۔
ایک لڑکی نے لڑکے سے کہا ’’دیکھو میں روایتی لڑکی نہیں ہوں۔ لکیر کے فقیر مجھے اچھے نہیں لگتے۔ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو کچھ مختلف انداز سے میرا رشتہ مانگ کر دکھاؤ‘‘ لڑکابولا ’’کیا تم میرے بچوں کو اپنا جنازہ اٹھانے کا موقع دوگی؟‘‘۔ عمران خان نے بھی قرض مانگنے کو پھانسی سے منسلک کرکے اپنی ذات اور قرض مانگنے کے درمیان ایک ایسا ہی تعلق پیدا کرلیا تھا۔ ہر کوئی جانتا ہے پاکستان کے حکمران ’’بیٹھ جاتا ہوں وہاں قرض کی بات ہو جہاں‘‘ کی مثال ہیں۔ پھر عمران خان نے ایسی بات کیوں کہی۔ ممکن ہے انہیں خود بھی یقین نہ ہوکہ کبھی سلیکٹ ہو جائیں گے لہٰذا بونگیاں مارنے میں کیا جاتا ہے۔ عمران خان پہلے حکمران نہیں ہیں حکومت سنبھا لتے ہی جنہیں اس مرحلے سے گزرنا پڑا۔ پرویز مشرف کو بھی آتے ہی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تھا۔ زرداری حکومت کو بھی اسی در پر ماتھا ٹیکنا پڑا تھا۔ نواز شریف نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی دوست ممالک سے مدد لی تھی اور ساتھ ہی آئی ایم ایف سے بھی۔ عمران خان کو بھی نہ نہ کرتے رقیب کے درپر جانا پڑا۔ جب وہ قرض نہ لینے کی بات کرتے غیر غیر سے لگتے تھے۔ اپنائیت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وزیراعظم بننے کے بعد جب سے ملکوں ملکوں قرض کی تلاش میں ہیں بخدا پاکستانی لگنے لگے ہیں۔ ایک آدمی نے ائر پورٹ پر کسی خوبصورت لڑکی کو یونی فارم میں دیکھا۔ جستجو ہوئی کون سی ائر لائن کی ہوسٹس ہے۔ وہ اس کے نزدیک گیا اور بولا ’’ترکش ائر لائن؟‘‘ لڑکی خاموش رہی۔ ’’امارات ائر لائن؟‘‘ لڑکی پھر بھی خاموش رہی۔ وہ لڑکی کے قریب ہوتے ہوئے بولا ’’برٹش ائر لائن؟‘‘ لڑکی بولی ’’تجھے تکلیف کیا ہے کمینے:‘‘ آدمی مسکرایا اور بولا ’’اچھا اچھا پی آئی اے۔‘‘ انسانی رویے اور الفاظ نسبت کا پتا دیتے ہیں۔
ہمارے دور اور علم کی مجبوری ’’سمٹنا‘‘ ہے۔ رشتے ناتے، چیزیں سب سکڑتی سمٹتی جارہی ہیں سوائے قرض کے۔ ایک قرض ہے جس کے لینے اور دینے والے پھیلتے جارہے ہیں۔ تعلیم کے لیے قرض، بچوں کی شادی کے لیے قرض، گھر بنانے اور خریدنے کے لیے قرض، جینے کے لیے قرض، مرنے کے لیے قرض۔ لیکن ذرا ٹھیریے۔ ہم روانی میں لکھ گئے مرنے کے لیے قرض کہیں نہیں ملتا۔ قرض دینے والے دینے سے پہلے قرض اور سود کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہیں۔ ایک صاحب نے لائبریرین سے کہا ’’کوئی ایسی کتاب دیں جس میں خودکشی کی تراکیب بیان کی گئی ہوں۔‘‘ لائبر یرین نے اسے گھور کے دیکھا اور کہا ’’بھاگ یہاں سے۔ کتاب تیرا باپ واپس کرے گا؟‘‘ وزیراعظم عمران خان بائیس سال قرض کو لعنت قرار دیتے رہے۔ قرض نہ لینے کے بڑے بڑے دعوے کرتے رہے۔ دعوے کرتے وقت وہ فراموش کرگئے کہ دعویٰ ایسا تیر ہے جو لوٹ کر بھی آتا ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی انہیں اس کا سامنا کرنا پڑا۔
چین کو ہمارے یہاں اس شوہر کی مثل سمجھا جاتا رہا ہے جسے آسانی سے اُلو بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ چین نے اُلو بننے سے انکار کردیا۔ عمران خان تحریک انصاف کی میڈیا ہائپ کے باوجود پاکستان کے لیے ایک بیل آؤٹ پیکیج فوری حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ قوم کو باور کرایا جارہا تھا کہ اس دورے کے نتیجے میں چین اربوں ڈالرکا قرضہ فراہم کردے گا اور ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں پڑے گا۔ عمران خان جب چین پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے کسی سینئر حکومتی رہنما کے بجائے چین کے وزیر ٹرانسپورٹ کو بھیجا گیا۔ سفارت کاری کی دنیا میں اسے ’’پوسچرنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کھچڑی ہیں اور ہم بریانی۔ ہم آپ سے بالادست ہیں۔ مذاکرات ہماری منشا اور ترجیح کے مطابق ہوں گے۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان اور ان کے وزرا نے سی پیک کے بارے میں جس قدر متنازع بیانات دیے تھے یہ اس کا جواب اور قدرتی ردعمل تھا۔
عمران خان گزشتہ حکومت کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے سی پیک کو تنقید کا ہدف بناتے رہے ہیں۔ سی پیک کے ازسرنو جائزے کی بات ایک تواتر سے کی گئی۔ چین کی طرف سے دورے کی ابتدا ہی میں عمران خان پر واضح کردیا گیا کہ خبردار جو کسی پرانے معاہدے کو ہاتھ لگایا۔ چین کو عمران خان اور ان کی حکومت نے کچھ زیادہ ہی سہل لے لیا تھا۔ ناتجربے کاری کی حد یہ تھی کہ سعودی عرب سے قرض حاصل کرنے کی عجلت میں چین سے مشاورت کے بغیر یا کسی ایسی میٹنگ کے بغیر جس میں تینوں ممالک کے نمائندے شریک ہوتے سعودی عرب کو بھی سی پیک کا پارٹنر بنادیا گیا۔ جب آپ اپنے سیاسی مخالفین کو برا بھلا کہنے میں اس بات کا دھیان رکھنا بھی گوارا نہ کریں کہ اس کی زد چین جیسے دوست ملک پر پڑتی ہے تو اس کا کچھ ردعمل تو آپ کے سامنے آئے گا۔
چین کے صدر نے عمران خان کو اتنا وقت نہیں دیا جتنا وہ پاکستان کے سابق حکمرانوں کو دیتے آئے ہیں۔ چین نے کسی بھی سطح پر تحریک انصاف کی حکومت کو فوری امداد یا قرضے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔ ویسے بھی چین سعودی عرب یا امریکا کی طرح قرض نہیں دیتا۔ چین کا قرضہ انویسٹمنٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں چین نے یہ بات ضرور کی ہے کہ چین پاکستان کی مدد کرے گا لیکن اس کے لیے مزید مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے ’’اوئے سنبھل کے‘‘ چین سے قرضہ مانگنے آؤ تو دھیان سے، مکمل تیاری اور مستقبل کے کسی ٹھوس سیاسی وژن کے ساتھ آؤ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ چین کے دورے کے بعد عمران خان اور ان کے وزیر وزرا گفتگو میں احتیاط کرنے لگے ہیں۔ ایسا تب ہی ہوتا ہے جب بندہ کہیں سے چھتر کھا کے آیا ہو۔